تیار تیرا ہے پھر سے مقتل

دسمبر 1996ء کے اواخر تھے۔ کرسمس کے دن اور کیمڈن اسٹریٹ ڈبلن آئرلینڈ میں ایشین فوڈ شاپ میں دکان کے مالک یوسف صاحب سے ایک لمبا اونچا شخص گپ شپ لگا رہا تھا ۔ دو ہفتہ کے بعد ہمارا ایف آر سی ایس کا امتحان تھا اور پتہ چلا کہ یہ ڈاکٹر صاحب ویسے تو سرجن ہیں لیکن لندن میں پڑھائی کے دوران صحافت کا بھی شغل رکھتے ہیں اور میرے ساتھ ایف آر سی ایس کے امتحان دینے کے لئے تشریف لائے ہیں۔ سلام و دعا کے بعد پتہ چلا کہ ان کو ڈاکٹر شاہد مسعود کہتے ہیں اور کراچی سے ان کا تعلق ہے۔ یہ میری ڈاکٹر صاحب سے پہلی ملاقات تھی۔ کل ٹی وی پہ ڈاکٹر صاحب کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں دیکھیں تو مجھے بہت افسوس ہوا کہ ایک پڑھا لکھا انسان پابندِ زنجیر و سلاسل ہے۔ ابھی اس کیفیت سے باہر نہ آئے تھے تو پروفیسر جاوید کی کلائیوں میں پڑے سنگل کہ جن سے بعد از موت بھی چھٹکارا نہ تھا میرے سامنے آن کھڑے ہوئے اور پوچھنے لگے کہ کیا مجھ پہ لگے الزام ان سے بھی بڑے ہیں جن کو اپنی وجہء شہرت بنائے لوگ ایوانوں میں بیٹھے ہیں۔ جن کے کبھی پروڈکشن آرڈرز جاری ہوتے ہیں تو کبھی وہ قائمہ کمیٹی کے بلا مقابلہ سربراہ منتخب ہوتے ہیں۔ کرپشن کے الزامات میں دھنسے لوگ میرے حاکم ہیں اور ان کے مقابل اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر چارجز میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہم جاں سے گذر رہے ہیں۔ اربوں کی بات نہیں بلکہ کھربوں کے قصے جن سے منسوب ہیں ان کی ضمانت یوں ہوتی ہے کہ جیسے معاملہ ہی کچھ نہ ہو ۔
کہتے ہیں کہ شخصیتوں کی سیاست اور صحافت کبھی بھی قوم کی آواز نہیں بنتی مگر کیا کروں جب ہمارا نظریہ ہی کچھ ایسا ہے کہ جس میں ووٹ کو عزت دو کے نعرے دفن ہیں اور منہ پہ لگی چپ ہی میں بقا سمجھی جا رہی ہے۔ ہمارے مستقبل کی لیڈر جس کے سامنے بڑے بڑے یوں سر نگوں تھے کہ مخالفت کرنے والے چوہدری نثار کے روپ میں پارٹی بیدخلی تک جا پہنچے تھے آج اس ٹیم میں بھی شامل نہیں ہیں کہ جن کے ذمے پارٹی سربراہان کی گرفتاری کی صورت میں ذمہ داریوں کا تما م تر بوجھ ہوگا ۔وہ جن کے وعدے تھے کہ نہ میں جھکوں گا نہ بلیک میل ہوں گا آج چور ڈاکو کے خطابات دینے کے بعد ان کو اپنے وزراء سے زیادہ پروٹوکول دینے پہ راضی ہے۔ وہ جو کہتا تھا کہ این آر او نہیں ہو گا وہ پھر کس سہولت کاری میں مصروف ہے کہ دودھ کی رکھوالی پہ اسے ہی بٹھانے پہ مجبور ہے کہ جس کے احتساب کا مینڈیٹ لے کر وہ اسمبلی پہنچا تھا ۔جی بات اسی اسمبلی کی ہو رہی ہے جس نے پچھلی ایک دہائی میں کتنی قانون سازی کی ہے کہ آج اس کی ضرورت کو سامنے رکھ کے انہیں ہی با توقیر کیا جا رہا ہے جنہوں نے بقول آپ کے ملک کو دنیا میں بے توقیر کیا تھا ۔ میرے ایوانوں میں کیا ہوتا ہے اس کی مثال تو پچھلے ادوار سے ہم گاہے بگاہے دیکھتے ہی رہے ہیں ۔ان ایوانوں کی توقیر کبھی عورتوں کو دیے گئے خطابات نے رقم کی ۔تو کبھی ایک دوسرے کو ایسی شرم و حیا دلائی گئی کہ ضرب المثل ہی بن گئی ۔کسی نے وزارت کے دوران اقامے لئے تو کسی نے بیرونِ ممالک ملازمت سے کمائی کی ۔ کبھی یہ اسمبلی مچھلی بازار بنی تو کبھی اس کے مائیک ٹوٹے۔ کبھی ایک دوسرے کیساتھ دست و گریبان اپنے بچوں کے آئینہ دکھانے پہ اگلے روز شرمندہ پائے گئے ۔اس ملک میں تو رواج ہے کہ جس کے گلے میں رسہ پورا آئے اسے ہی لٹکا دیا جائے۔ سو لٹک رہے ہیں وہ صاحب اور ایک ایک کرکے ہم سب کو لٹکا دیجیئے کہ زبان پہ قفل لگانے کا اس بہتر تو اور کوئی طریقہ ہی نہیں ہے ۔باقی جن کی زبان وقت کے ساتھ ساتھ اسے سیاسی قلابازیاں کھاتے ہوئے تبدیل ہوتی رہے اس کو خاموش کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ کل وہ جس کے پیٹ نہ بھرنے پہ جزبز ہورہے تھے اور شوگر ملوں کے کئی بچے دینے پہ یوں ورطہء حیرت میں گم تھے کہ پریس کانفرنس کر بیٹھے تھے آج کل اسمبلی کے مقدس ایوانوں میں ان کے بارے میں یوں گل افشانی کر رہے ہیں کہ شاید ان کی گرفتاری کی صورت میں آنے والا طوفان سنبھالا نہ جائے گا ۔صاحب بات ہے اس تحفظ کی جو ووٹ کو خرید کے آپ کو ملتا ہے۔ پھر نہ تو پیرا گون سٹی آپ کا اسمبلی تک رستہ روک سکتا ہے اور نہ ہی وہ وعدہ معاف گواہ کے جس کے بیانات کے بعد لوہے کے چنے بھی اس زنگ یا بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں کہ جن کے علاج کے لئے حکومتی دوستوں کو اپنے دوستوں کے لئے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے پڑتے ہیں اور دوسری طرف کوئی ڈیڑھ ماہ حوالات میں بیمار رہنے کے باوجود ہتھکڑی میں ہی اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔ بھائی بند تو ایفیڈرین کیس میں بھی بند ہو تو اس کے بچوں کی ڈیوٹی ایمرجینسی وارڈ میں نہیں لگ سکتی کیونکہ وہاں پہ کام شدت آرام نہیں لینے دیتی اور ہسپتال کے ایم ایس کی نوکری بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے ۔
سلام ہے طارق نیازی صاحب آپ کے اس جذبے کو لیکن اب ہوشیار رہیے گا کیونکہ ایک ایسے قابل ڈاکٹر سے ڈبلن میں ملاقات کے بعد اپنی چال اور اوقات بھول کے ہنس کی چال چلنے پہ مصر افراد کا انجام میں نے تو کچھ اچھا نہیں دیکھا ۔
وزیرِ اعظم صاحب کی قمیض میں دو دو سوراخ دیکھے تو خیال آیا کہ شاید یہ وہ بندہ جس کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہے اور گدڑی کا یہ لعل قوم کی قسمت بدلنے کو تیا ر ہے لیکن اب میں کہتا ہوں کہ اس قوم کو سمجھا دیجیئے کہ ایک دریا کے بعد اسے ایک اور دریا کا سامنا ہے۔ اس کے لئے نیا مقتل نئی انتظامیہ کے ساتھ ترتیب پا رہا ہے ۔ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب آپ نے بھی نشتر چھوڑ کے قلم سے مسیحائی کو بہتر جانا تھا تو اب بھگت لیجئے کہ اپنی حدوں سے بڑھ جانے والے کو کتر کے اس کے سائز میں کر دینے کا وطیرہ لئے ہوئے یہ اشرافیہ اپنے دامن پہ داغ مٹانے کے لئے داغ لگا دینے والے کو ہی سرِ مقتل تختہء4 دار پہ لٹکا دیتی ہے کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔
۔
یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے