اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 97

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط ...
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 97

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تیسرے روز جب پہرے دار باہر گئے ہوئے تھے میں نے اپنے ایک ساتھی سے جلمیک کے بارے میں پوچھا۔ پہلے تو وہ جواب دیتے ہوئے گھبرایا۔ پھر ادھر ادھر دیکھ کر آہستہ سے بولا
’’یہاں کسی کا کوئی نام نہیں ہے۔‘‘
میں نے اسے بتایا کہ جلمیک ایک شودر نوجوان ہے اور اسے موت کے غار میں آئے ایک سال سے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ میرے ساتھی غلام نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا اور سست ہاتھوں سے کدال چلانے لگا۔

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 96 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
 ایک روز ہم تین چار غلاموں کی زنجیریں کھول کر ہمیں سرنگ کے عقب میں اندر لے جایا گیا جہاں ایک جگہ سے پہاڑی کی نئی دیوار کھودی جارہی تھی۔ ہماری زنجیریں نئے کھونٹوں سے باندھ دی گئیں۔ یہاں پہلے سے ہی چھ غلام کام کررہے تھے۔ میں نے جلتے دئیے کی دھیمی روشنی میں دیکھا کہ ایک نوجوان کونے میں کدال چلارہا تھا۔ اس کے شانے چوڑے اور چہرے کے نقش تیکھے تھے۔ جسم پسینے اور کوئلے کی کالک میں بھرا ہوا تھا۔ میرے دل نے کہا کہ یہی نوجوان جلمیک ہوسکتا ہے۔
میں کھسکتا کھسکتا اس نوجوان کے پاس پہنچ گیا اور اسے جلمیک کا نام لے کر پکارا۔ اس نے پلٹ کر میری طرف دیکھا۔ یہی چترالی کا محبوب تھا۔ اگرچہ وہ ایک مضبوط اور گھٹے ہوئے جسم کا نوجوان تھا لیکن سال بھر سے وہاں مشقت کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں حلقے پڑگئے تھے۔ میں نے سرگوشی میں اسے بتایا کہ مجھے اس کی محبوبہ چترالی نے وہاں بھیجا ہے اور وہ باہر ان ہی پہاڑیوں میں ایک جگہ اس کا انتظار کررہی ہے۔ اتنا سن کر اس کی آنکھوں میں ایک دم چمک سی آگئی۔ وہ کچھ بولنے ہی والا تھا کہ میں نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
اب ہمارا نگران واپس چلا گیا تو میں نے اسے ساری بات کھول کر بیان کردی۔ وہ بڑا خوش ہوا مگر پھر ایک دم اداس ہو کربولا۔
’’ہم یہاں سے فرار نہیں ہوسکیں گے۔‘‘
میں نے کہا ’’آج رات تیار رہنا۔ یہ کام میں کروں گا۔‘‘
جب ہمیں رات کو بھی دو خشک روٹیاں اور پانی دیا گیا تو ہم سمجھ گئے کہ رات ہوگئی ہے۔ جلمیک نے جب سے سنا تھا کہ چترالی زندہ ہے اور مندر سے فرار ہوکر پہاڑیوں میں اس کا انتظار کررہی ہے اس کے اندر زندہ رہنے کی ایک زبردست خواہش جنم لے چکی تھی۔ سارے غلام خشک روٹیاں زہر مار کر کے لیٹ گئے تھے۔ وہ بے حد تھکے ہارے تھے۔ چند لمحوں بعد ہی ان کے خراٹوں کی آوازیں گونجنے لگیں۔
میں اور جلمیک جاگ رہے تھے۔ میں نے اسے آہستہ سے کہا ’’تیار ہوجاؤ۔‘‘اتنا کہہ کر میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور اپنے پاؤں کی زنجیر کو دونوں ہاتھوں میں لے کر تھوڑا سا زور لگا کر کھینچا تو اس کی کڑیاں ٹوٹ گئیں۔ جلمیک میری اس مافوق الفطرت طاقت پر حیران سا ہوکررہ گیا۔ اس کے بعد اسی طرح میں نے اس کے پاؤں کی زنجیر توڑ کر الگ کردی۔ سرنگ میں تھوڑے فاصلے پر ایک دیا راشن تھا۔ سارے غلام گہری نیند سورہے تھے۔ میں نے جلمیک کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ میں سرنگ کی دیوار کے ساتھ لگا آہستہ آہستہ آگے بڑھا۔ جہاں دیا روشن تھا وہاں سے ہم نیچے بیٹھ کر گزرگئے۔ سامنے وہ سیڑھیاں تھیں جو اوپر جاتی تھیں۔ یہ سیڑھیاں پتھروں کو کاٹ کر بنائی گئی تھیَ یہاں ایک پہرے دار تلوار لٹکائے پتھر پر بیٹھا اونگھ رہا تھا۔ میں نے جاتے ہی اس کی گردن کو دبوچ لیا اور اس سے پہلے کہ وہ کوئی آواز نکالتا اس کا کام تمام کردیا۔ میں نے جلمیک کو اشارہ کیا۔ ہم پتھر کی سیڑھیاں طے کرکے اوپر سرنگ کے پہلے تختے میں آگئے۔ یہاں کچھ تازہ ہوا کا احساس ہوا۔ اس جگہ بھی غلام دیوار کے ساتھ پڑے سورہے تھے۔ ہم ان کے درمیان سے پھونک پھونک کر قدم رکھتے سرنگ کے دروازے پر آکر دیوار کے ساتھ لگ گئے۔ میں نے گردن بڑھا کر دیکھا کہ سرنگ کے باہر تین ہٹے کٹے نگران کمر میں تلواریں لٹکائے گاس پر بیٹھے نشہ کررہے تھے۔ یہ رات کے پہرے دار تھے۔
جلمیک کے کاندھے پر میں نے ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے کھڑے رہنے کو کہا اور خود سرنگ سے باہر نکل کر ان پہرے داروں کے درمیان آگیا۔ وہ مجھے دیکھ کر اچھل پڑے۔ میں یہی تماشہ دیکھنا چاہتا تھا۔ ایک چراغ ان کے قریب ہی لکڑی کے اسٹول پر جل رہا تھا۔ میں نے پاؤں مار کر اسٹول گرادیا۔ چراغ بجھ گیا۔ مگر ستاروں بھری رات کی اتنی روشنی ضرورت تھی کہ میں انہیں اور وہ مجھے دیکھ سکتے تھے۔ انہوں نے تلواریں کھینچ لیں اور مجھ پر حملہ کردیا۔ تینوں تلواریں ایک ساتھ مجھ پر حملہ آور ہوئیں۔میرے لئے انہیں قابو کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ دوسرے ہی لمحے ایک تلوار میرے بھی ہاتھ میں تھی اور دو پہرے داروں کی کٹی ہوئی لاشیں گھاس پر پڑی تھیں اور تیسرا پہرے دار مجھ سے تلوار بازی کررہا تھا۔ میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا ورنہ میں اسے قدیم مصر کی تلوار بازی کے کچھ نادر نمونے دکھاتا۔ چنانچہ میں نے اس وحشی کو بھی تہ تیغ کیا اورجلمیک کو آواز دی۔ وہ پہلے ہی سرنگ سے باہر آچکا تھا اور زمین پرگری ہوئی ایک تلوار اٹھا کر میری مدد کو آنے ہی والا تھا۔ مگر اب مجھے اس کی مدد کی ضرورت نہیں تھی۔ ہم وہاں سے نکل کر غار کے پیچھے آگئے۔ یہاں ایک اصطبل بنا ہوا تھا جہاں پہرے داروں کے گھوڑے بندھے ہوئے تھے۔ ہم نے دو گھوڑے کھولے، ان پر سوار ہوئے اور دریا کی طرف روانہ ہوگئے۔
جلمیک کو جب سے یہ معلوم ہو اکہ اس کی والدہ وفات پاچکی ہیں تو وہ بے حد غمزدہ ہوگیا۔ کہنے لگا ’’اب میں شہر کس سے ملنے جاؤں گا۔ وہاں میرا کوئی نہیں ہے۔‘‘ میں نے کہا
’’چترالی نے تمہارے لئے سب کچھ چھوڑ دیا ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے تمہیں کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہوگی۔‘‘
جلمیک بولا ’’چترالی میری زندگی ہے میں اس کے لئے اپنی جان بھی قربان کرسکتا ہوں۔‘‘
اس طرح کی باتیں کرتے گھوڑے دوڑاتے ہم رات کی تاریکی میں اس جگہ پہنچ گئے جہاں میں نے جنگل میں ایک جگہ جھونپڑی بنا ئی تھی اور اس کے اندر چترالی کو بٹھا کر باہر سبز سانپ کو پہرے پر بٹھادیا تھا۔ آخر تاریخوں کا زرد آدھا چاند جنگل میں اوپر آگیا تھا اور اس کی پھیکی روشنی کا غبار پھیل گیا تھا۔ جھونپڑی کے قریب آکر ہم گھوڑوں سے اترے۔ جونہی میری نگاہ، جھوپڑی پر پڑی میرا اوپر کا سانس اوپر ہی رہ گیا۔ جھونپڑی خالی تھی۔ باہر سبز سانپ کٹا ہوا پڑا تھا اور اس کے پاس ہی ایک اجنبی آدمی کی لاش پڑی تھی جو پھول چکی تھی۔ جلمیک نے پوچھا یہ کیا ماجرا ہے۔ چترالی کہاں ہے؟ ساری بات میری سمجھ میں آگئی تھی۔ میرے بعد ڈاکو قسم کے لوگ وہاں آگئے ہوں گے۔ انہوں نے چترالی کو اغوا کرنے کی کوشش کی۔ ایک ڈاکو کو سانپ نے ڈس کر ہلاک کردیا۔ دوسرے نے تلوار کے وار سے سانپ کے دو ٹکڑے کردئیے اور چترالی کو اغوا کرکے لے گئے۔ میرا سانپ کا مہرہ بھی چترالی کے ساتھ چلا گیا (جاری ہے )

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 98 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں