یہ ہے ریاست مدینہ.......!

یہ ہے ریاست مدینہ.......!
یہ ہے ریاست مدینہ.......!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


”ایک عام بندے کے بیٹے ہوکرتمہاری اتنی جرات کہ مجھ سے مقابلہ جیتو“۔ یہ کہہ کر اس لڑکے نے ایک زوردار تھپڑ اس لڑکے کے منہ پر دے مارا جو اپنی جیت کی خوشی میں ایک طرف سرشار کھڑا تھا۔تھپڑ مارنے والا مصر کے گورنر کا بیٹا تھا۔اس نے یہ تھپڑ کیوں مارا؟ تھپڑ کھانے والے نے کیا جواب دیااور گورنر کے بیٹے کے ساتھ کیا ہوا؟ اس جیسے دیگر سوالات جاننے کے لئے آپ کو یہ کہانی شروع سے سناتا ہوں …… یہ ریاست مدینہ کے دوسرے جانشین کا دور تھا۔ ریاست کی سرحدیں دور دور تک پھیل چکی تھیں۔ یہ اس جانشین کی بات ہے جس کے بارے میں انگریز محققین کا کہنا ہے کہ اگر اس کا دورمزید دس سال رہ جاتا تو پوری روئے زمین پر اسلام کا پھریرا لہراجاتا۔ اس دور میں جانشین کو امیر المؤمنین کہا جاتا تھاجو تمام امور سلطنت مدینہ کی ایک مسجد میں بیٹھ کر چلاتاتھا۔یہ دس سالہ دوراشاعت اسلام اور فتوحات کے اعتبارسے ریاست مدینہ کا سب سے بہترین دور گناجاتا ہے۔ مصر اس دور میں ریاست مدینہ کاایک صوبہ شمارہوتا تھا۔ وہاں کے گورنر کا نام عمروبن العاص تھا۔عصرکے بعد جیساکہ انسانی فطرت ہے کہ میدانوں کی طرف نکلنا، مصر کے بچے بھی شہر سے باہرایک گراؤنڈ کارخ کرتے اور کھیل کود میں مصروف ہوجاتے۔


اس دن بھی ایسا ہی ہوا۔بچے اپنے اپنے کھیل میں مصروف تھے کہ اچانک دو بچوں میں تیز رفتاری کی ٹھن گئی۔ایک بچہ کسی عام شہری کا،جبکہ دوسرا گورنرکاتھا۔ دونوں کا دعویٰ تھا کہ شہر کاتیزرفتار بچہ مَیں ہی ہوں۔ بحث مباحثہ تیز ہوا تو فی الفور فیصلہ کرنے پر اتفاق ہوا……چنانچہ ایک منزل مقرر کی گئی کہ وہاں تک جو بچہ سب سے پہلے پہنچے گا۔ شہر کے تیزترین بچے کا تاج اسی کے سرسجے گا۔ وقت مقررہ پر دوڑ شروع ہوئی۔ مقابلہ اتنا دلچسپ تھا کہ تمام لوگ دم سادھے دیکھ رہے تھے۔ گورنر کے بچے کو بھی اپنی تیزرفتاری پر بڑا ناز تھا، لیکن دوسرے بچے نے ”وکٹری لائن“ کو پہلے کراس کرلیا۔لائن عبور کرنے کے بعد اس نے پیچھے آتے گورنر کے بچے کو فاتحانہ نظروں سے دیکھا،گویاکہہ رہا ہو: ”اب سنا! شہر کا تیزترین بچہ کون ہے“؟ایک تو ریس ہارنے کا غم اور دوسرا ”ونر“ کی فاتحانہ نظریں،ہارنے والے بچے نے آؤدیکھا نہ تاؤ۔فوراً ہی ایک زور دار تھپڑ اس کے چہرے پر دے مارااور بولا: ”عام شہری کے بچے ہو کر گورنر کے بیٹے سے ریس جیتنے کی جرأت کرتاہے“۔


بچہ روتا ہوا گھر آیااور تمام ماجرا اپنے والد کو سنایا۔والد نے مدینے کی راہ لی اور مسجد میں بیٹھے خلیفہ کی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ حاکم وقت نے فوراً گورنر کو اپنے بچے کے ساتھ دارالحکومت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔جب یہ ثابت ہوگیا کہ زیادتی گورنر کے بیٹے کی طرف سے ہوئی ہے تو جانشین رسولؐ نے یہ حکم دیا کہ مصری کا بیٹا بھری عدالت میں گورنر کے بیٹے کو اسی طرح تھپڑ مارے،جس طرح اس نے مارا تھا۔
جناب وزیراعظم صاحب! آپ ہر وقت ریاست مدینہ کا ورد کرتے رہتے ہیں، لیکن گستاخی معاف! ریاست مدینہ اس طرح کی نہیں تھی۔ ریاست مدینہ کا سربراہ ایک مسجد میں بیٹھتا تھا۔وہ کسی ایسی جگہ نہیں رہتاتھا، جہاں تک عوام کی رسائی ممکن نہ ہو۔ نہ تو اس کا کوئی محل تھااور نہ ہی اسے یہ اعلان کرنا پڑتا تھا کہ مَیں اس محل میں نہیں رہوں گا۔وہ قریب کے لئے پیدل اور دور کے سفر کے لئے اونٹ یا گھوڑا استعمال کرتاتھا۔نہ تو اس کے لئے کوئی شاہی سواری (اس دور کے مطابق ہاتھی)تھی اور نہ وہ اسے استعمال کرکے یہ کہتا تھا کہ فی کلومیٹر اس کاخرچا کم ہے۔اس کے بیٹے بھی اسی معاشرے میں رہتے تھے، ان کا اٹھنا بیٹھنا، لکھنا پڑھنا اور تمام کاروبارحیات وہیں تھا۔اس نے اپنے بچوں کو روم یا ایران میں چھوڑ کر کسی کو یہ طعنہ نہیں دیاتھا کہ وہ مخلص نہیں، کیونکہ ان کی اولادیں باہر ہیں۔اس کے کئی ساتھیوں کے کاروبار شام اور مصر تک پھیلے ہوئے تھے، لیکن اس نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ کرپٹ ہیں، کیونکہ ان کے کاروبار باہر ہیں۔چونکہ اس نے کوئی کتا نہیں رکھا ہواتھا، اس لئے اسے کتے کی بجائے غریبوں کے پیٹ کی فکررہتی تھی۔


حضور والا! اس کی شوریٰ (کابینہ) اس کے لئے نہ تو جھوٹ بولتی تھی اور نہ اس کے بلنڈروں کا دفاع کرتی تھی۔ اس کی کوئی پارٹی تھی،نہ ہی اس کا فنڈ کہیں باہر سے آتاتھا، نہ اس کے کسی یارغار نے اس کی فنڈنگ پر سوالات اٹھائے تھے اور نہ ہی اسے کسی عدالت کو یہ درخواست دینا پڑی تھی کہ میری پارٹی کے فنڈنگ کیس کی تحقیقات روکی جائیں۔وہ عوام کے حالات جاننے کے لئے رات کو خفیہ گشت بھی کیاکرتاتھا،وہ اپنی ذمہ داریوں سے کبھی بے خبر نہیں رہتا تھا، لہذا اس کی بیوی کو اسے یہ نہیں بتانا پڑتا تھا کہ ”جناب! حاکم وقت آپ ہی ہیں“۔ ایک بار ایسا ہوا کہ اس وقت کی سپر پاور کاوفد اس ملنے آیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ریاست کا سربراہ ایک درخت کے نیچے اینٹ /پتھر کا سرہانہ بنا کر آرام سے سو رہا تھا۔نہ پروٹوکول تھا، نہ سائرن بجاتی ہوئی گاڑیاں اور نہ ہی دھکے مارتے گارڈ۔ ریاست مدینہ کے سربراہ کی سیکیورٹی پر ایک دھیلا تک خرچ نہیں ہو رہا تھا۔ جناب وزیراعظم! آپ کو وہ واقعہ تو یاد ہوگا،جب دوسری سپر پاور کا وزیر ریاست مدینہ کے سربراہ سے ملنے آیا تھا تو اسے پتا چلا کہ بیت المال کا اونٹ گم ہوگیااور حاکم وقت اسے تلاش کرنے اکیلا جنگل گیا ہوا ہے۔آپ کی ریاست میں تو پورے پورے بندے غائب ہو جاتے ہیں اور ان کی تلاش میں نکلنا تو کجا آپ تو ان کے لئے ہمدردی کا ایک لفظ تک نہیں بول پاتے۔


عالی جاہ! ریاست مدینہ میں ایک عام شہری کابیٹا اور گورنر کا بیٹا ایک ہی گراؤنڈ میں کھیلنے جاتے تھے۔گورنر کا بیٹا جب کھیلنے یا پڑھنے کے لئے جاتا تھا تو نہ روٹ لگتا تھااور نہ ہی پولیس کی تین چار گاڑیاں انہیں پک اینڈ ڈراپ کی سہولت سرکاری خرچے پرمہیا کرتی تھیں۔ ریاست کے ملازم صرف ریاست کے ملازم تھے۔کسی کو یہ اجازت نہیں تھی کہ انہیں ریاست کے خرچے پر اپنی ذاتی سیوا کے لئے گھر لے آئے۔ ریاست مدینہ میں سب لوگ حقیقت پسند تھے۔ کسی نے ذاتی مفاد کے لئے گورنر کے بیٹے کی طرفداری نہیں کی۔کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہمارا علیم خان اورجہانگیرترین اچھا ہے اور تمہارا سعد رفیق اور احسن اقبال کرپٹ۔ وہاں مظلوم بچے کے والدکو ایف آئی آر درج کرانے کے لئے ایڑیاں رگڑنا نہیں پڑیں،

نہ ہی اسے روکاگیااور نہ ہی رکنے پر اسے غائب کیاگیا،نہ اسے مہنگا وکیل کرنا پڑا، نہ حاکم وقت سے ملنے کے لئے کسی سیکرٹری کو درخواست دینا پڑی اور نہ ہی انصاف کے لئے برسوں انتظار کرنا پڑا،نہ ہی حاکم وقت نے کوئی کمیٹی بنائی،بس جھٹ منگنی اورپٹ بیاہ!……میرے وزیراعظم صاحب! ریاست مدینہ ایک مقدس اسلامی اصطلاح ہے،جس کا اعتراف غیرمسلم سکالر بھی کرتے ہیں۔آپ سیاست اور اقتدار کے لئے جو مرضی کریں، لیکن اس تصور کوسربازاریوں رسوا نہ کریں کہ آنے والی نسل کے دل و دماغ میں اس ریاست مدینہ کے بارے میں منفی خیالات جنم لیں۔ ہمارے پاس کردار کی دولت تو کب کی ختم ہو چکی، بس چند الفاظ ہی تو بچے تھے۔ اقتدار کی خاطر عزت، غیرت، حمیت اور کردار سب کا جنازہ توکب کا نکل چکا، مسلمانوں کے پاس اب صرف یہ پاکیزہ اسلامی ٹرمینالوجیزہی تو بچی ہیں، ان کو یوں نیلام نہ کریں۔کیا آپ کے پاس بیچنے کو اور کچھ نہیں بچا؟کیا آپ اسلام کے مقدس الفاظ اور تصوات کے تاجر بننا چاہتے ہیں؟

مزید :

رائے -کالم -