ہمارے قومی اعزازات اور ایشین ایوارڈ

ہمارے قومی اعزازات اور ایشین ایوارڈ
ہمارے قومی اعزازات اور ایشین ایوارڈ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ہمارے ملک میں ایوارڈ دینا اور لینا باقاعدہ ایک فن ہے۔ اب اس میں لین دین بھی شامل ہو گیا ہے۔ ہمارے قومی اعزازات جو ہر سال صدر مملکت اور چاروں صوبوں کے گورنر صاحبان مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ”کارہائے نمایاں“ انجام دینے والی شخصیات کو عطا کرتے ہیں، خاصے متنازع ہو چکے ہیں۔ ہر سال بہت سے جینوئن لوگوں کو بھی یہ اعزازات ملتے ہوں گے لیکن ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کے بل پر ہر حکومت سے ایوارڈ چھین کر لے جاتے ہیں۔ ان پر کچھ حلقوں کی طرف سے اعتراضات اٹھتے ہیں۔ گرد و غبار اڑتا ہے لیکن ہوتا  ہواتا کچھ بھی نہیں۔ وہی ہوتا ہے جو حاکمانِ وقت کی مرضی ہوتی ہے۔ تین ضدیں بہت مشہور ہیں۔ بالک ہٹ، تِریاہٹ اور راج ہٹ یعنی بچے کی ضد، عورت کی ضد اور بادشاہ کی ضد، بچہ ضد کرنے پر آئے تو ایک طوفان کھڑا کر دیتا ہے۔ عورت ضد پر آئے تو گھر کے گھر برباد ہو جاتے ہیں۔ بادشاہ ضد پر اتریں تو سیلِ خون جاری کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہر سال اگست کی 13تاریخ کو قومی اعزازات کا سرکاری ہینڈ آؤٹ جاری کیا جاتا ہے اور اس پر ایک کونے میں جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے کہ یہ ہینڈ آؤٹ چودہ اگست سے پہلے شائع نہ کیا جائے اور تقریباً 7ماہ کے بعد مارچ میں یہ اعزازات تقسیم کر دیئے جاتے ہیں۔ اعزازات کے اعلان اور تقسیم میں 7ماہ کا وقفہ شاید اس لئے رکھا گیا ہے کہ اگر کسی کو کسی اعزاز پر اعتراض ہو تو وہ سامنے آ جائے، لیکن ہماری تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ لوگوں نے کسی اعزاز پر اعتراض اٹھائے ہوں اور وہ اعزاز دینے کا فیصلہ حکومت پاکستان نے واپس لے لیا ہو۔ اس کا سبب بادشاہوں کی وہی ضد ہے جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ 


ان حالات میں لاہور شہر میں ہمارے کچھ دوست صاحبانِ علم و فضل اور اربابِ فنونِ لطیفہ کی ان کی زندگی ہی میں قدر افزائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان پر بے ساختہ پیار آنے لگتا ہے۔ کسی زمانے میں یہاں ہر سال بولان اور نگار ایوارڈ دیئے جاتے تھے اور ان ایوارڈوں کو سرکاری ایوارڈوں سے بھی زیادہ مقام و مرتبہ حاصل تھا۔ لیکن اب ان ایوارڈوں کی تقسیم کا سلسلہ، مدت ہوئی موقوف ہو چکا۔ ان دنوں لاہور میں ایک ہی ایسا ادارہ رہ گیا ہے جو مختلف شعبوں کی شخصیات کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اعزازات عطا کرتا ہے۔ یہ ایشین ایوارڈ ہے۔ اس ایوارڈ کے بانی ہمارے دوست پیر سید سہیل بخاری ہیں جو پیر مکی دربار کے سجادہ نشین بھی ہیں۔ وہ صلہ و ستائش کی تمنا کے بغیر یہ کام پچھلے 35برسوں سے کئے چلے جا رہے ہیں۔ شاہ صاحب فنونِ لطیفہ سے وابستہ شخصیات کا ایک چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا ہیں۔ اگر انہوں نے کبھی اپنی یادداشتیں لکھیں تو یہ فلم، ٹیلی ویژن، تھیٹر اور گائیکی کی ایک مکمل تاریخ ہو گی اور ابلاغیات کے طلبائے علم کے لئے یہ ایک نایاب تحفہ ہو گا۔


میرے قارئین جانتے ہیں کہ میں پچھلی نسل کا آدمی ہوں۔ میرے استاد گرامی ڈاکٹر ریاض مجید صاحب نے آج سے تیس برس پہلے ہی یہ اعلان کر دیا تھا کہ ناصر بشیر کے اندر ایک بوڑھی روح کُلبلا رہی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انوکھے کام کرنے والے لوگوں کے انوکھے کام کو سراہنے کی مجھے عادت ہے۔ ہمارے ہاں مُردہ پرستی عام ہے۔ مر دوں کے جشن منائے جاتے ہیں اور زندوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ پیر سید سہیل بخاری ایک بزرگ کے دربار کے سجادہ نشین ہیں ان پر بھی مردہ پرستی کا الزام آسانی سے دھرا جا سکتا ہے لیکن میں انہیں اس بات پر داد دینا چاہتا ہوں کہ انہوں نے ہمیشہ اپنے عہد کی زندہ شخصیات سے محبت کی ہے۔ وہ ان کے کام کو ان کی زندگی ہی میں سراہنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ حکومت کی مدد کے بغیر اللہ جانے کہاں سے فنڈز جمع کرتے ہیں اور علم و ادب اور فنونِ لطیفہ سے وابستہ شخصیات کو ایوارڈ دینے کے لئے لاہور یا اسلام آباد کے کسی نہایت عمدہ مقام پر تقریب سجا دیتے ہیں۔

ان کی آخری ایوارڈ تقریب اسلام آباد کے این سی اے آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی۔ یہ شاید وفاقی حکومت کو احساس دلانے کے لئے تھی۔ انہیں یہ بتانے کے لئے تھی کہ دیکھو یوں ہنر مندوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ میں لاہور کی کئی ایسی تنظیموں کو بھی جانتا ہوں جو ہر سال ایوارڈ تقریبات منعقد کرتی ہیں۔ ایوارڈ کے نام پر لوگوں سے بھاری چندہ وصول کرتی ہیں۔ ایک ایسی ہی تقریب میں مجھے بھی جانے کا موقع ملا جب وہاں تمام ایوارڈ دے دیئے گئے تو آخر میں اعلان کیا گیا کہ اگر کوئی صاحب ایوارڈ سے محروم رہ گئے ہوں تو اسٹیج پر آکر اپنا نام لکھوا دیں۔ ہمارے دوست سہیل بخاری نے ایشین ایوارڈ کو اس طرح ٹکے ٹوکری نہیں ہونے دیا۔ اگر وہ کسی شخصیت کو ایوارڈ دینے کے لئے منتخب کرتے ہیں تو یہ واقعی اعزاز کی بات ہوتی ہے۔ ایک دن شاہ صاحب نے باتوں ہی باتوں میں مجھے خود بتایا تھا کہ کئی لوگ ان سے ایوارڈ حاصل کرنے کے لئے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں، کبھی سفارش کراتے ہیں اور کبھی ترغیبِ زر دیتے ہیں۔


میں پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات و ثقافت راجہ جہانگیر انور کا کام قدرے آسان کرنا چاہتا ہوں۔ انہیں پیر سید سہیل بخاری جیسی شخصیت سے مسلسل رابطہ رکھنا چاہیے، تاکہ جب وہ پنجاب سے قومی اعزازات کے لئے شخصیات کا چناؤ کرنے لگیں تو صرف حق داروں کے نام سامنے آئیں۔ایشین ایوارڈ، سرکاری اعزازات کے لئے ایک نرسری بھی ہو سکتی ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایشین ایوارڈ پانے والی شخصیات میں سے کچھ کو قومی اعزازات کے لئے چن لیا جائے، بلکہ میں یہاں یہ تجویز بھی دوں گا کہ پنجاب کا اطلاعات و ثقافت کا ڈیپارٹمنٹ ایشین آرٹس کونسل جیسی متحرک تنظیموں کی سرپرستی کرے، تاکہ ہنر مند فنکاروں کی دل جوئی کرنے والوں کی دل جوئی بھی ہوتی رہے۔ اگر ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کی مختلف ذرائع سے مالی مدد کی جا سکتی ہے تو ادیبوں، شاعروں اور فن کاروں کی پچھلے 35برسوں سے حوصلہ افزائی کرنے والوں کی سرپرستی کیوں نہیں کی جا سکتی؟

مزید :

رائے -کالم -