جمہوریت کا گملا اور سول بالا دستی کا پھول

جمہوریت کا گملا اور سول بالا دستی کا پھول
جمہوریت کا گملا اور سول بالا دستی کا پھول

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


صحافت کا مضمون پڑھاتے ہوئے اساتذہ خبر کی تعریف میں جو مقبول و معروف مثال دیا کرتے ہیں وہ یہ کہ اگر کتا بندے کو کاٹ لے تو یہ کوئی خبر نہیں ہاں البتہ اگر بندہ کتے کو کاٹ لے تو یہ خبر ہے توجیح یہ دی جاتی ہے کہ کتے کا کاٹنا تو روٹین کی، معمول کی بات ہے اس میں کوئی خبریت نہیں اگر انسان یہ کام کرے تو خبر ہی نہیں بلکہ چوکھٹے میں لگنے والی اہم خبر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا ہونا معمول کی بات نہیں ہے۔ انسان اپنے معمول سے، سرشت سے ہٹ کر کام کرے گا تو خبروں کی زینت بنے گا۔ وطنِ عزیز کی سیاست میں ”کہہ مکرنی“ کو یوٹرن کا نام دے دیا گیا ہے کبھی وعدہ خلافی اور اپنی بات سے پھر جانے کو معاشرے میں بہت برا سمجھا جاتا تھا مگر  تبدیلی نے الفاظ کے معانی و مفاہیم کو بھی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے اس تبدیلی کا سہرا ہمارے کپتان خان نے یوں اپنے سر باندھ لیا ہے کہ انہوں نے موقع محل کے مطابق مؤقف، ارادہ، راستہ تبدیل کر لینے کو عظیم اور کامیاب رہنماؤں کا وصف قرار دے دیا اور خود اس عظیم راستے پر اتنا چلے کہ ان کے یوٹرنوں کی گنتی کرنا بھی محال ہے۔ چنانچہ بعض ستم ظریفوں نے تو ان کا نام یوٹرن خان رکھ چھوڑا ہے ویسے دیکھا جائے تو ہمارے خان صاحب کوئی پہلی شخصیت نہیں ہیں  جن پر موقف تبدیل کرنے کا الزام لگا ہو۔

ہمیں یاد ہے کہ جب 5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق نے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھال لیا تھا تو اپنی پہلی نشری تقریر میں قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ 90 دن کے اندر انتخابات کرا دیں گے۔ ان تین ماہ کے لئے عبوری طور پر انہوں نے وفاقی کابینہ تشکیل دی جس میں مخدوم جاوید ہاشمی بھی شامل تھے۔ تین ماہ گزرنے کے بعد جاوید ہاشمی نے وزارت یہ کہہ کر چھوڑ دی کہ الیکشن کرانے کے لئے حکومت میں شامل ہوئے تھے جب الیکشن ہی نہیں کرا رہے تو حکومت میں رہنے کا کوئی جواز نہیں جنرل ضیاء الحق چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے جس کا مخفف سی ایم ایل اے (CMLA) مستعمل تھا۔ جب ایک آدھ اور وعدہ خلافی ہوئی تو جاوید ہاشمی نے پھبتی کسی کہ سی ایم ایل اے کا مطلب کینسل مائی لاسٹ اناؤنسمنٹ (میرا سابقہ اعلان منسوخ کر دو) ہے ہمارے ”محبوب“ وزیر اعظم اگر پھر سے اپنے کسی گزشتہ اعلان کے برعکس مؤقف اختیار کرتے تو یہ کوئی خبر نہ ہوتی اور نہ اس پر تبصرے کی ضرورت ہوتی خبر تو یہ ہے کہ اپوزیشن (پی ڈی ایم) نے یوٹرن لے لیا ہے۔ انہوں نے جب چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تو اس پر مطلوبہ تعداد میں سینٹروں کے دستخط موجود تھے۔ ان تمام سینٹروں  نے کھڑے ہو کر بھی تصدیق کی کہ دستخط انہی کے ہیں۔ تحریک کی کامیابی یقینی تھی مگر جب ووٹ ڈبے سے نکلے تو 14 سینٹر ادھر سے ادھر ہو چکے تھے اور تحریک ناکام ہو گئی۔ اس وقت اپوزیشن کا موقف تھا کہ خفیہ رائے شماری کی وجہ سے ایسا ہوا اگر ہاتھ کھڑے کرائے جاتے تو 64 کے 64 دستخط کنندگان تحریک کے حق میں کھڑے ہوتے جبکہ تحریک کی کامیابی کے لئے صرف 53 ووٹوں کی ضرورت تھی۔

ڈبے سے صرف 50 ووٹ تحریک کے حق میں نکلے اگر کھلے عام رائے شماری ہوتی اور کوئی سینٹر ادھر سے ادھر ہوتا تو قانون کے مطابق وہ نشست سے محروم ہو کر گھر سدھار جاتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ سینیٹ میں رائے شماری خفیہ نہ کرائی جائے کھلے عام کرائی جائے۔ اب کپتان نے سینیٹ کے آمدہ انتخابات کے حوالے سے دو تبدیلیاں لانے کا عندیہ دے ڈالا ہے ایک تو انتخابات مارچ کی بجائے فروری میں کرا دیئے جائیں گے تاکہ اپوزیشن کے ممکنہ استعفوں سے پہلے ہی سینٹ انتخابات کرا کے اپنی اکثریت بنالی جائے۔ دوسرے یہ کہ سینٹ کے لئے رائے شماری (ووٹنگ) خفیہ کی بجائے سر عام کرائی جائے۔ اپوزیشن نے سابقہ مؤقف ترک کرتے ہوئے یوٹرن لے لیا ہے اور خفیہ رائے شماری کو ہی جمہوریت کی روح قرار دے دیا ہے۔ ہمارے یہاں المیہ یہ ہے کہ وقتی اور گروہی مفاد کا جادو سرچڑھ کر بولتا رہتا ہے اور نقصان اٹھانے کے باوجود ہم سبق سیکھنے کے لئے تیار نہیں۔ ابھی کل کی بات ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں اپوزیشن پیپلزپارٹی کو نیب کے ”غیر منصفانہ اور ظالمانہ“ قوانین کے ذریعے رگڑا لگ رہا تھا تو حکمران مسلم لیگ (ن) ان قوانین کو تبدیل کر کے انہیں منصفانہ بنانے کے لئے تیار نہیں تھی۔

اب خود مسلم لیگ (ن) انہی قوانین کی زد میں ہے۔ اب موجودہ حکمران نیب  قوانین میں تبدیلی کے حق میں نہیں۔ کل پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ مل کر قوانین تبدیل کر لیتیں تو آج سکھی رہتیں۔ آج پی ٹی آئی ان سے سبق سیکھ کر ترمیم پر آمادہ ہو جائے تو کل کو سکھی رہے گی۔ مگر تاریخ یہی کہتی ہے کہ ہم سبق سیکھنے میں عموماً ناکام رہتے ہیں ہم وقتی اور گروہی مفاد کے اسیر ہیں جب ہم اپوزیشن میں ہوتے تو قوانین کو عدالتی نظام کو، جیلوں کے حالات کو، پولیس کے ڈھانچے کو غرض ہر ادارے کو عوام دوست بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں اور جب ہم خود اقتدار میں آ جاتے ہیں تو مخالفین پر سختی کا آغاز کر دیتے ہیں۔ آج سول بالا دستی کا نعرہ اپوزیشن کو بہت مرعوب ہے لیکن اس کے بنیادی تقاضوں پر کوئی توجہ نہیں۔ سول بالا دستی کا پھول جمہوریت کے گملے میں کھلتا ہے اور جمہوریت کے گملے میں وقتی مفاد کی کھاد یا گروہی تعصب کی گوڈی پھل پھول نہیں لا سکتیں۔ جمہوریت کی مضبوطی کے لئے اصول، اصول اور صرف اصول پر ڈٹ کر کھڑے رہنا پڑتا ہے۔ اگر یہ نہیں کر سکتے تو نیویں نیویں ہو کر اسی تنخواہ پر کام کرتے رہیں۔ بے اصول، بے پیندے کے لوٹوں کی قسمت میں ”تابعداری“ ہے بالا دستی نہیں۔

مزید :

رائے -کالم -