سیاست کا بارہواں "کھلاڑی"

سیاست کا بارہواں "کھلاڑی"
سیاست کا بارہواں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

خیبر پختونخواہ میں بلدیاتی الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کو بدترین شکست کا سامنا ہے. گذشتہ 9 سال سے وہاں حکومت کرنے والی جماعت کو انتہائی ذلت اس شخص سے اٹھانا پڑی جس کو وہ سیاست کا بارہواں کھلاڑی قرار دیتے ہیں.
مولانا فضل الرحمن 2018 کے الیکشن میں اپنی سیٹ ہار گئے تو عمران خان کی طرف سے انہیں سیاست کا بارہواں کھلاڑی، مولانا ڈیزل، کرپٹ اور نا جانے کیا کیا القابات سے نوازا گیا اور یہ شادیانے مسلسل 4 سال بجاتے رہے کہ اب مولانا فضل الرحمن کی سیاست کو ہم نے ختم کردیا ہے.
مولانا فضل الرحمن صاحب نے اس شکست کو دھاندلی، الیکشن پر ڈاکہ زنی، نتائج کی تبدیلی اور عوامی رائے کا قتل قرار دیا اور نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا. مولانا نے پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے بھی الیکشن کی شفافیت کے حوالے سے رابطے کیے تو انہوں نے بھی 2018 کے الیکشن کو دھاندلی زدہ الیکشن قرار دیا.
مولانا فضل الرحمن نے تجویز پیش کی کہ اس الیکشن کے ذریعے جو ہمارے اراکین منتخب ہوئے ہیں انہیں بھی حلف لینے سے روکا جائے اور احتجاجی تحریک ابھی سے شروع کردی جائے جس میں نئے انتخابات کا مطالبہ کیا جائے. مولانا کے ساتھ پی پی پی اور لیگی قیادت نے اتفاق نہیں کیا اور اپنے اراکین کو اسمبلی میں پہنچا دیا جس کے نتیجے میں شہباز شریف صاحب قائد حزب اختلاف بن گئے اور پاکستان تحریک انصاف نے اپنی حکومت سنبھال لی. پاکستان تحریک انصاف نے حکومت سنبھالنے کے بعد جب پی پی پی اور لیگی رہنماؤں پر مقدمات کی بوچھاڑ کردی اور ہر اس رہنماء کو پکڑ کر جیل میں ڈال دیا جو ذرا سی بھی زبان کھولنے کی کوشش کرتا تھا، تو  پھر پی پی پی اور لیگی قیادت نے سیاست کے اسی "بارہویں کھلاڑی" سے مدد کی درخواست کی اور میدان میں آنے کے لیے کہا. مولانا فضل الرحمن نے اپوزیشن جماعتوں سے رابطے کیے، ان سے ملاقاتیں کیں، ان کے راہنماؤں کے اجلاس بلائے اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے اپوزیشن اتحاد قائم کرلیا. پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے مولانا فضل الرحمن کو صدر منتخب کیا اور الیکشن کی دھاندلی کے خلاف باقاعدہ تحریک چلانے کا آغاز کردیا گیا. مولانا فضل الرحمن نے مختلف شہروں میں ملین مارچ کیے اور سندھ سے آزادی مارچ کا قافلہ لے کر نکلے جس میں یقینا بہت بڑی تعداد تھی اور ایک محتاط اندازے کے مطابق وہ مارچ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی مارچ تھا. چونکہ مارچ کے شرکاء مذہبی طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور وہ انتہائی جوش و خروش سے حکومت کے خاتمے کے لیے نکلے تھے اس وجہ سے پوری دنیا کی نظریں اس مارچ پر مرکوز ہوگئیں کہ یہ لوگ ناجانے کتنی توڑ پھوڑ اور نقصان کریں گے. دنیا تب انگشت بدنداں نظر آئی جب مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں نکلنے والے اس مجمعے نے کراچی سے لے کر لاہور اور پھر لاہور سے اسلام آباد تک کا سفر کیا مگر مجال ہے کہ انہوں نے راستے میں کوئی گلاس بھی ٹوٹنے دیا ہو. یہ جب سڑکوں پر چلتے تو ایک سائیڈ سے ٹریفک رواں رکھنے کی اپنی مدد آپ کے تحت کوشش کرتے، ایمبولینسوں کو فوری راستہ دیتے اور خود مولانا فضل الرحمن کی جماعت کے رضاکار انہیں اس بھیڑ سے نکالتے. جس جگہ پڑاؤ ڈالتے وہاں سے اٹھتے وقت اس جگہ کی صفائی کرکے اٹھتے اور لاہور میں عجیب منظر تھا جب سڑک کے دونوں کناروں پر انکا پڑاؤ تھا اور درمیان میں میٹرو بسیں اپنی اپنی منازل کو رواں دواں تھیں ان کی چند منٹ بھی سروس انہوں نے معطل نہیں ہونے دی.... جو دنیا انہیں جاہل، ان پڑھ، دقیانوس، قدامت پسند اور ناجانے کیا کیا کہتے نہیں تھکتی تھی ان پر واضح پیغام جا چکا تھا کہ یہ لوگ ان ترقی پسند، ماڈرن، پڑھے لکھے، سلجھے ہوئے اور عالمی معیاروں پر پورے اترتے لوگوں سے کہیں بہتر ہیں جو 2014 میں لاہور کے سب سے پورش علاقوں سے نکلے تھے اور اسلام آباد تک پہنچتے انہوں نے توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ، مار دھاڑ، سول نافرمانی، اخلاق سے گری حرکتیں، اداروں پر حملے اور اس جیسے کئی شرمناک کام سرانجام دیے تھے. جو جب دھرنے سے اٹھے تھے تو کئی ہفتے سی ڈی اے کو  اسلام آباد کو صاف کرنے میں لگانے پڑے تھے. جن کی شلواریں سپریم کورٹ کے جنگلوں پر لٹکتی نظر آتی تھیں. جو تاریخ کا ایک سیاہ باب ہیں.
کل جب فواد چوہدری پاکستانی قوم پر اظہارِ افسوس کررہا تھا کہ انہوں نے ایک انتہاپسند جماعت کو ہمارے مقابلے میں جتوا دیا ہے تو میں سوچنے پر مجبور تھا کہ چوہدری صاحب حد سے زیادہ چالاک ہیں یا بہت نادان ہیں؟ پاکستانی قوم نہیں جانتی کہ کس نے سیاست میں نفرت، انتہا پسندی اور تشدد کی روایات کو فروغ دیا ہے اور کون تھا جس نے ان علاقوں کو بھی پاکستان سے جوڑے رکھا جہاں وطن عزیز کے خلاف نفرت پروان چڑھ چکی تھی.
کیا عوام نہیں جانتی کہ مولانا فضل الرحمن نے اس وقت مذہبی طبقے کو اپنی فہم و فراست سے قابو کیے رکھا اور انہیں آئین و قانون کے تابع رکھا کہ جب دشمن نے پاکستان میں آگ و خون کی ایک جنگ جاری کررکھی تھی. کیا لوگ اس سے بے خبر ہیں کہ مولانا نے اپنی جماعت میں ہر مذہب و مسلک کے لوگوں کو ساتھ چلا کر یہ ثابت کیا ہوا ہے کہ وہ اتحاد بین المسالک و مذاہب کے داعی ہیں. 
کیا عوام اس سے غافل ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف ہمیشہ ڈٹ کر اصولی موقف اپنایا اور اس کے نتیجہ میں کئی دفعہ انہیں اڑانے کی کوشش کی گئی.
کیا فواد چوہدری پاکستانی قوم کو اتنا بیوقوف سمجھتا ہے کہ وہ اپنی ابھی کل کی تازہ تاریخ ہی بھول گئی ہو.
کراچی میں ٹارگٹ کلنگ، دہشتگردی، بھتہ خوری اور بوری بند لاشوں کا سلسلہ اپنے عروج پر تھا. میاں نواز شریف صاحب نے وہاں پر رینجرز کے ذریعے آپریشن کا فیصلہ کیا اور کارروائیوں کا آغاز کردیا گیا. اس کے نتیجے میں جرائم پیشہ لوگوں نے اپنی سازشوں کا جال بننا شروع کردیا اور کراچی کو پاکستان سے الگ کردینے کی دھمکی دی... تب نواز شریف صاحب نے مولانا فضل الرحمن سے درخواست کی اور اس معاملے کو سلجھانے کے لیے کہا مولانا فضل الرحمن نے کراچی کا دورہ کیا اور معاملات اس قدر فراست سے سلجھائے کہ جب کراچی سے واپس اسلام آباد پہنچے تو ایم کیو ایم وفاق میں حکومت کی اتحادی بن چکی تھی.
ابھی جب پورے پاکستان میں سیاست جمود کا شکار تھی. سیاست دانوں کو گرفتار کرکے جیلیں بھری جا رہی تھیں تو اس وقت تمام ابن الوقت لوگ یا تو سیاسی وفاداریاں بدلنے میں مصروف تھے یا پھر سہم کر بیٹھے ہوئے تھے. تب بھی وفاقی حکومت کے خلاف سیاسی جدوجہد کا آغاز کرنے والا، اس پر دباؤ بنانے والا  (جس کا بھرپور فائدہ پی پی اور مسلم لیگ ن نے اٹھایا اور انہیں سکھ کا سانس لینا نصیب ہوا)  وہ مولانا فضل الرحمن ہی تو تھا جس کو آپ سیاست کا بارہواں کھلاڑی کہتے تھے.
پاکستانی عوام یہ بھی جانتی ہے اور اچھے سے جانتی ہے کہ قائد حزب اختلاف صاحب وفاقی وزیر برائے حزب اختلاف بنے رہے.مسلم لیگ ن مفاہمت و مزاحمت کے بیچ پھنسی رہی، جب زرداری صاحب اپنا ایک ہی بیٹا ہونے کے عذر گنوانے میں مصروف تھے، جب ساری اپوزیشن عوام پر ہونے والے ظلم و زیادتی اور مہنگائی والے عذاب کے ڈھائے جانے پر لب سی کر بیٹھی ہوئی تھی تب مولانا فضل الرحمن ہی تھا جس نے اسمبلی سے باہر ہونے کے باوجود عوام کی بھرپور نمائندگی کی اور حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کیا.
فواد چوہدری صاحب فرما رہے تھے کہ بدقسمتی سے وہ جماعت جیت گئی ہے جس کو ختم ہوجانا چاہئے تھا تو عرض ہے کہ جناب یہ جماعت اس وقت وہاں پر حکومت کرچکی ہے جب آپ ابھی سیاسی طور پر پیدا بھی نہیں ہوئے تھے اور شاید جسمانی طور پر بھی.
1972 میں اسی مولانا فضل الرحمن کا والد مفتی محمود اس صوبے کا وزیراعلیٰ بنا تھا. جس نے محض 9 ماہ میں وہاں سے سود اور شراب کا مکمل خاتمہ کردیا تھا. تعلیم کے لیے جو اقدامات انہوں نے محض 9 ماہ میں اٹھائے تھے آپ لوگ 9 سال میں نہیں اٹھا سکے. وہاں پر مکمل طور پر اردو زبان کو نافذ کردیا تھا. اور مفتی محمود وہ آدمی ہے جس نے مسئلہ ختم نبوت پر شاندار کردار ادا کیا تھا، پاکستان کو چلانے والی کتاب یعنی آئین پاکستان کو بنانے والوں میں سرفہرست نام مولانا فضل الرحمن کے والد مفتی محمود کا ہے آمریت کے خلاف بھرپور جدوجہد کی چاہے وہ ایوب خان کی تھی یا ضیاءالحق کی. اس کی پاداش میں کئی بار جیل بھی گئے. جس جماعت کے بانی مولانا شبیر احمد عثمانی نے کراچی میں سب سے پہلا پاکستانی پرچم باقاعدہ لہرانے کا اعزاز حاصل کیا ہوا ہو اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا جنازہ جس جماعت کے بانی نے پڑھایا ہو اس جماعت کے جیت جانے پر اگر کسی کو مروڑ اٹھ رہے ہیں تو کیا وہ شخص اس وطن عزیز کا خیر خواہ ہو سکتا ہے؟؟؟؟

۔

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

 ۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.   

مزید :

بلاگ -