لاپتہ افراد کے ورثاءکی مشکلات ختم نہ ہوسکیں ، پیدل مارچ کے شرکاءکو ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری
جہلم ، لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کوئٹہ سے روانہ ہونیوالے پیدل مارچ کے شرکاءسندھ سے ہوتے ہوئے جہلم کے علاقے سرائے عالمگیر پہنچ گئے ہیں لیکن مشکلات ختم نہ ہوسکیں ، پنجاب میں داخلے سے شروع ہونیوالی خفیہ اداروں کی مداخلت مریدکے سے سرائے عالمگیر تک شدت اختیار کرگئی ہے جہاں ویگن میں سوارایک درجن سادہ کپڑوں میں ملبوس مسلح افراد نے ماماقدیر بلوچ سمیت خواتین شرکاءکو دھمکیاں دی گئیں اور نازیبازبان استعمال کرتے ہوئے اسلام آبادنہ جانے کی ہدایت کردی۔نجی ٹی وی چینل کے مطابق کئی سالوں سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے اکتوبر2013ءسے کوئٹہ سے روانہ ہونے والے مارچ کے شرکاءسابق چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری کے دورمیں کراچی پہنچنے، سندھ کے مختلف علاقوں سے ہوتے ہوئے پنجاب میں داخل ہوئے ۔ اوکاڑہ میں پیدل مارچ میں شامل لاپتہ افراد کے ورثاءپر مبینہ طورپر ایک ٹرک چڑھا دیاگیاجس کے نتیجے میں دوافرادزخمی ہوگئے ۔ شرکاءکو لاہورسے شروع ہونیوالا دھمکیوں کا سلسلہ تاحال بند نہیں ہوسکا، پہلی مرتبہ پنجاب کے دارلحکومت لاہورمیں شرکاءکو دھمکیاں دی گئیں ، گجرات میں پولیس کمانڈوز نے مارچ کو روک لیا اور شہرمیں داخلے سے روکدیاتاہم واپسی سے انکار پر پیدل شہریوں کو براستہ جی ڈی روڈ بائی پاس ایک لمبے راستے پر ڈال دیاگیا۔ جہلم کے علاقے سرائے عالم گیرمیں ایک ویگن میں سوار درجن بھر سادہ کپڑوں میں ملبوس مسلح افراد نے ماما قدیر بلوچ اور شرکاءخواتین سے بدتمیزی کی ، گالیاں دیں اور اُنہیں غداراور پاکستان کا دشمن قراردیتے ہوئے مارچ ختم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں ۔ جیونیوز کے مطابق ماما قدیر بلوچ کاکہناتھاکہ مسلح افراد نے پنجابی زبان میں گالیاں نہ دیں ، پرامن مارچ ہے ، سڑک بھی بلاک نہیں کی ، آپ کو اگر نفرت ہے تو اظہارکریں لیکن گالیاں نہ دیں، مارچ کی آخری منرل اسلام آباد ہے ۔بتایاگیاہے کہ مقامی لوگوںکی مداخلت پر مسلح افراد بھاگ گئے ۔ شرکاء کا کہنا تھا کہ مریدکے سے خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار مارچ میں داخل ہورہے ہیں اور ڈراتے دھمکاتے ہیں کہ مارچ ختم کرکے واپس جائیں ، پیدل مارچ میں خواتین ، بچے اور بزرگ بھی شامل ہیں ۔