آنکھ اس وقت کھلی جب مجھے گاڑی پر ڈالا جارہا تھا ۔دن کا فی چڑھ گیا تھا اور دھوپ کافی پھیلی ہوئی تھی۔
’’میری رائفل۔۔۔۔؟‘‘میں نے آنکھ کھلتے ہی پوچھا ۔
’’آپ کے پاس رکھی ہے۔۔۔۔‘‘ایک شخص نے جواب دیا۔
مجھے بخار اسی شدت سے تھا اور سر درد پھٹا جا رہا تھا۔
’’ نوشاہ کا کیا حال ہے ۔۔۔۔۔؟‘‘
’’ ان کو دوسری گا ڑی پر ڈال دیا ہے ۔۔۔۔‘‘ اسی شخص نے جواب دیا ۔
’’ کیا حال ہے ۔۔۔۔؟ ‘‘ میں نے پو چھا۔
’’ بخار ہے اور پیر میں درد ۔۔۔۔‘‘
’’ خیال رکھنا ۔پیر کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے ۔۔۔۔‘‘ میں نے تا کید کی ۔
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...قسط نمبر 38 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہم لوگ بڑے کرب اور تکلیف کے عالم میں ڈوب پہنچے ۔نوشاہ کی حالت زیادہ تکلیف دہ تھی ۔وہ گاؤں کے سارے لوگ ہی عیادت کے لیے آئے اور چند بوڑھے جو پہلے ہی نصیحت کر چکے تھے ،انھوں نے آتے ہی کہا :
’’ ہم پہلے ہی کہہ رہے ہیں کہ کھنڈر کا نہار کوؤ نہار نہیں ہے گا۔۔۔بھوت آہی گا بھوت ۔۔۔۔ ۔۔مگر سرکار نہ مانیں ۔۔۔۔یہ وہی کا سارا کشٹ ڈالا ہوا ہے گا۔۔۔۔‘‘
میں نے بگڑ کر کہا کہ ایسے کتنے ہی بھوت میں نے جہنم واصل کئے ہیں۔ انشاء اللہ، بشرط حیات اس کو بھی ضرور ٹھکانے لگاؤں گا۔
گاؤں میں اب ٹھہرنا نہ صرف غیر ضروری تھابلکہ خطرناک بھی۔ہم دونوں کو طبئی امداد کی ضرورت تھی۔اس لیئے ہمیں فوََرا ہی بھوپال کی طرف روانہ کر دیا گیا۔جہاں شام کو ہم نے سیدھے ہسپتال پہنچ کر دم لیا۔ڈاکٹر اور سول سرجن سب ہی مجھے جانتے تھے۔ہم دونوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیااور دیہاتی ہمارے گھروں پر اطلاع کرنے چلے گئے۔
میں چھ روز ہسپتال رہ کر واپس گھر آگیا،لیکن ڈیڑھ ماہ تک میعادی بخارمیں مبتلارہا اور بڑی مشکل کے بعدجان بچی۔ادھر نوشاہ چار ماہ ہسپتال میں رہے۔ان کے پیر کی ہڈی ٹھیک ہو گئی ،مگر بخارنے مہینوں پیچھا نہیں چھوڑا۔اور جب چار ماہ بعدگھر آئے تو مردوں سے بدتر تھے اور مزیدچھ ماہ قوت وصحت بحال ہو نے میں مصروف ہوئے۔
اس وقعے کو تقریباََ ایک سال گزر گیا۔میری صحت بحال ہو چوکی تھی اور شکار کا سلسلہ جاری ہوچکاتھا،لیکن مختلف مصروفیات نے ڈوب جانے کا موقع نہ دیا۔بہار کے موسم میں شکار کا بڑا لطف رہتا ہے اور میں ساراموسم بہار شکار ہی میں گزارتاہوں۔
لیکن بیماری کے دوسرے سال جو بہار کا موسم آیا تو میرے ایک عزیز نے مجھے گورکھ پور بلالیا۔وہاں کیسا کا جنگل شمالی ہند کی بہترین شکا ر گاہوں میں شمار ہوتا ہے۔چنانچہ میں نے کسیا ،پکر بھٹوا اور ترانی کے جنگلوں میں شکار کھیلا اور شیر ،ارنا بھینسا،بیل،بارہ سنگھااور چیتے سب ہی شکار کیے۔
اس دورے سے بھوپال واپس پہنچا تو ہر ملنے والے نے کھنڈر کے آدم خور کا تذکرہ کیا اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ وہ عام خیال کے مطابق ڈوب کے ایک مجرم نْٹ ،بھگوا،کی بدرْوح ہے،کیونکہ بھگوا جنگل میں درخت سے گر کر مر گیا تھااور دوروز تک کسی کو اس کی تلاش کا پتہ بھی نہ چلا تھا۔چنانچہ سب کہتے ہیں کہ یہ اسی کی روح ہے۔
اس کی آدم خوری کو ڈیڑھ سال گزر گیا تھا اور اب تک ڈوب اور بکرم پور وغیرہ دیہات سے چالیس پچاس آدمی کھا چکا تھا۔میں اس کی آدم خوری کی ابتدائی واردات سے واقف تھا اور جب لوگ مجھ سے اس کی آدم خوری کا تذکرہ کرتے تو میں فوراً اس رات کا واقعہ سنا دیتا ،جب نوشاہ کا ملازم اڑرہے سے ہوگیا تھا۔
بہرحال اس سال کی گرمیاں اس بھوت کی تباہ کاریوں کیافسانے سن سن کر ہی گزاریں۔
اس دوران ،میں اس نے مزید تین وارداتیں کیں۔ان تین شکا روں ،میں سے دوعورتیں تھیں۔تیسرا ایک نہایت مضبوط اور تندرست جوان تھا،جو ڈوب کا ہی رہنے والا تھا اور محض اپنی جہالت اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ماراگیا،غرضیکہ میں یہ افسانے بھی سنتا اور ساتھ ہی ملنے جلنے والواں کے یہ طعنے بھی سننا پڑتے کہ اتنی خلق خدا کا خون ہو رہا ہے اور یہ حضرت اس آدم خورسے ڈرتے ہیں۔تب ہی تو نہیں جاتے۔مجھے یہ انتظار تھا کہ سردیاں شروع ہو جائیں تو اس موذی کی خبر لوں۔(جاری ہے )