تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... چوتھی قسط
نمازِظہر کے بعد دربارِ خاص میں جہاں بڑے بڑے جلیل الشان امراء باریاب ہونے کو طرہ امتیاز جانتے تھے،جملۃ الملک وزیر اعظم سعداللہ خاں پیش ہوا۔ظلِ سبحانی یشعب کے تخت پر تشریف فرما تھے۔جلی آئینوں کے مانند جگمگاتے ہوئے مر مریں مرصع طاقتوں پر موتیوں کے پردے پڑے تھے۔طاقتوں میں رکھی ہوئی جڑوا انگیٹھیوں میں عود اور عنبر سلگ رہا تھا۔طلاکار چھت کے جواہرنگار فانوس مقیش کی چلمنوں سے چھن چھن کر آتی ہوئی روشنی میں دمک رہا تھے۔مقربین بارگاہ کا ہجوم مؤدب کھڑا تھا۔وزیراعظم کو رنش کے لئے جھکا تو سفید داڑھی طلاباف قالینوں کے فرش کو چھونے لگی۔شہنشاہ نے ابرو کی جنبش سے سعداللہ خاں کو گزارش کی اجازت دی لیکن بوڑھا وزیراعظم تسلیم کرکے خاموش کھڑا ہوگیا ۔
شہنشاہ نے اس خاموشی کے معنی سمجھ لئے اور ’’شاہ برج ‘‘ میں جلوس کرنے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے ۔سونے چاندی کے گرزوں ،تلواروں اور نیزوں کی دورویہ صفوں سے گزرتے ہوئے ظلِ سبحانی شاہ برج میں داخل ہوگئے ۔خواجہ سراؤں ،چیلوں اور خادموں کی مستعد جماعت باہر چلی آئی۔اس حجلۂ خاص میں شاہزادے تک بغیر مخصوص اجازت کے داخل ہونے کی جسارت نہ کرسکتے تھے۔آئینہ بند اور منبت کار دیواریں شہنشاہ اور وزیر اعظم کے لباسوں سے جگمگا اٹھیں۔ظلِ سبحانی پر دو زانوں بیٹھ گئے اور جملۃالملک پر نگاہ کی ۔سعداللہ خاں نے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ لئے ۔
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... تیسری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’مہابت خاں(صوبہ دار کابل) کا پرچہ لگا ہے کہ شاہِ ایران نے معاہدہ توڑ دیا۔سترہ ہزار افواج قاہرہ سے قندھار میں گھس آیا ہے اور ۔۔۔۔‘‘
وزیر اعظم خاموش ہوگیا۔شہنشاہ کی پیشانی پر شکن پڑچکی تھی۔تیکھی آواز میں جملہ پورا کردیا گیا۔
’’مہم ناکام ہوئی ۔‘‘
’’اس بارۂ خاص میں عالم پناہ کا جوارشاد ہواس کی تعمیل کی جائے گی۔‘‘
شہنشاہ نے جواب میں توقف کیا۔مغربی محراب کے پردے بندھے ہوئے تھے اور جمنا کے اس کنارے شاہ جہانی علم کے مغرور سائے میں سوار پہرے پر کھڑے تھے ۔شہنشاہ انہیں دیکھ رہے تھے پھر حکم ہوا ۔
’’لشکر آراستہ ہو ۔‘‘
نامزدگی کے لئے سپہ سالار وں کے نام بعدنمازِ مغرب پیش کئے جائیں ۔
وزیر اعظم کے شاہ برج سے نکلتے ہی قلعہ معلی کے اہم حصوں میں یہ خبر ایک زخمی پرندے کی طرح منڈلانے لگی۔پیشانیاں شکنوں سے بھر گئیں ۔آنکھوں کے گوشے سمٹ گئے۔سوچتی ہوئی نگاہیں پردہ غیب سے نمودار ہونے والی صورتوں کا انتظار کرنے لگیں ۔
اکبری دربار میں ماہم اور ادھم خاں نے جس اندرونی سازش کو با زیاب کیا تھا ،اسے نور جہاں اور شہریار نے منصب دیئے تھے اور مرتبے بلند کئے تھے۔عہد شاہ جہانی میں وہی سازش اورنگ زیب اور روشن آرا کا اعتبار حاصل کرچکی تھی اور مغل سلطنت کا مقدر لکھنے کا منصوبہ بنا رہی تھی ۔نوبت خانے سے آرام گاہ شاہی تک پھیلی ہوئی تمام دیواریں اس سازش میں شریک تھیں اور کان لگائے کھڑی رہتی تھیں ۔محرابیں سرگوشیاں کرتی تھیں۔ستون چغلی کھاتے تھے اور دریچے اپنی آنکھیں پھاڑے صورتوں پر لکھی ہوئی عبارتیں پڑھا کرتے تھے۔
روشن آرا کے محل کی ڈیوڑھی پر روشن چوکیوں اور طلائی جھاڑوں کی رو پہلی روشنی پہرہ دے رہی تھی۔نیزے کی طرح بلند سنگ مرمر کی سلوں سے تراشی ہوئی بھاری جسموں ،شربتی آنکھوں اورسنہرے بالوں والی اوزبک عورتیں ریشمی مروانی سرخ قباؤں پر چاندی کے کمر بند اور سروں پر سرخ شاہ جہانی پگڑیاں باندھے ،کمر میں تلواریں اور خنجر لگائے ۔گداز مضبوط ہاتھوں میں نیزے لئے مردوں کی طرح بے جھبک پہرہ دے رہی تھیں ۔اندر صحن کی طرف سیاہ فام حبشی کنیزیں سفید لباس پہنے حکم کی تعمیل میں اڑرہی تھیں ۔ خواجہ سرابھاری پشوازیں پہنے ،سر سے پاؤں تک زیوروں میں گندھے مغرور حسیناؤں کے مانند ٹھمک ٹھمک کر چل رہے تھے۔صحن کے درمیان سے تیر کی طرح سیدھی گزرتی ہوئی سنگ مرمر کی نہرایوان کو سلام کرتی ہوئی پیچھے چلی گئی تھی جو دولت خانہ کہلاتا تھا اور جو لمبے چوڑے اونچے چبوترے پر اس طرح نظر آرہا تھا جیسے سنگ سرخ کے ہاتھی پر سفید ہو دج بندھی ہو۔ایوان کے اندر باہر حلبی شیشوں کے سنہرے فانوس منور تھے ۔طلائی شمع دانوں میں لاتعداد کافوری شمعیں روشن تھیں جن کی اجلی ٹھنڈی روشنی استرا کار مجلّٰی عمارت کو ’’روشن محل ‘‘بنائے ہوئے تھی۔دولت خانے کی اندرونی دیواریں طلاباف دیوار پوشوں سے ڈھکی ہوئی تھیں ۔سونے کے پانی سے منقش چھت رنگارنگ کے شیشوں سے دھنک بنی ہوئی تھی۔وسط ایوان میں سونے کے منقش تخت پر چھریرے جسم اور اوسط قد کی روشن آرا مدند سے لگی بیٹھی تھی ۔ اونچی ناک اور کٹار کی طرح کھینچے ہوئے ابرو اس بات کی ضمانت تھے کہ وہ مغل شہزادی ہے ۔اس کی مغرور آنکھوں اور مضبوط ٹھوڑی سے جلال ٹپک رہا تھا ۔ دونو ں سفید ہاتھ انگھوٹھیوں اور انگشتانوں ڈھکے ہوئے تھے ۔جواہر نگار جھومرتاج کی طرح چمک رہا تھا۔وہ قدموں میں بیٹھے ہوئے خواجہ سرا کو سو چتی نظروں سے گھوررہی تھی ۔بارگاہ کے باہر خواصیں کھڑی تھیں ۔پھر ڈیوڑھی پر شور ہوا ۔ خواجہ سرا فہیم کھڑا ہوگیا ۔ایک خواص نے اطلاع دی ۔
’’بردار دولت پناہ ،شاہزادہ سوم تشریف لاتے ہیں ۔‘‘
شاہزادی کھڑی ہوگئی۔خواصیں چوکیوں اور کرسیوں اور تپائیوں کے تکیے اور پوشش درست کرنے لگیں ۔(جاری ہے )
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... پانچویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں