مقننہ سے عدلیہ پر حملہ

مقننہ سے عدلیہ پر حملہ
مقننہ سے عدلیہ پر حملہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں نااہل وزیراعظم خود کو نااہل ماننے کو اور اہل وزیراعظم خود کو وزارتِ عظمیٰ کااہل ماننے کو تیار نہیں۔ یہ صورتحال مزید مضحکہ خیز ہوگئی جب اہل وزیراعظم نے ایک نااہل شخص کی خاطرملکی آئین و قانون اور پارلیمان کا وقارمجروح کیا اور پارلیمان میں کھڑے ہو کر فردواحد پر تنقید کا ناصرف دفاع کیا بلکہ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں پر کڑی تنقید بھی کر ڈالی۔وزیرداخلہ احسن اقبال نے بھی ہمنوائی کی۔ وزیراعظم نے اراکین اسمبلی کو بھی یہ ہی روش اختیار کرنے کا باضابطہ طور پر ٹاسک دے دیا۔ یہ طرزعمل اپنا کر شاہد خاقان عباسی نے اداروں کے درمیان ایک باقاعدہ تصادم کی بنیاد رکھ دی۔ ایک نااہل فردواحد کی خاطر شاہد خاقان عباسی توہینِ عدالت کے مرتکب بھی ہوئے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اداروں کے درمیان محاذآرائی کا موقع کون اور کیوں دے رہا ہے؟ فائدہ کس کا ہوگا؟ پانامہ لیکس پر بننے والی تحقیقاتی جے آئی ٹی کی رپورٹ ایک مکمل ٹرائل تھا جسے عدالت عظمیٰ نے مکمل طور پر نظر انداز کرکے صرف اقامہ کو نااہلی کے فیصلے کی بنیاد بنایا۔ جبکہ ایسے ہی اقامے خواجہ آصف , احسن اقبال اور دوسرے بہت سے وزراء کے پاس تھے جنہیں کسی نے نااہل نہیں کیا۔ یوں نواز شریف کو مظلومیت کا سرٹیفیکیٹ ملاجس نے نوازشریف کو عدلیہ پر تنقید کا موقع فراہم کردیا جوآج اداروں کے درمیان باقاعدہ تصادم کی شکل اختیار کرچکاہے۔ 
نواز شریف اپنی حکومت کی چار سالہ ناقص کارکردگی کے باعث 2018کے انتخابات میں عوام کو مطمئن نہیں کرسکتے تھے مگر سپریم کورٹ کے فیصلے نے جو بیانیہ نواز شریف کو دے یا ہے۔ وہ 2018کے عام انتخابات "مجھے کیوں نکالا " کی بنیاد پر لڑنے کیلیے کافی ثابت ہوگا۔ یہ ہی وہ سیاسی اہداف ہیں جنہیں حاصل کرنے کیلیے شاہد خاقان عباسی بشمول پوری حکومتی مشینری کے میدان میں آچکے ہیں۔ جس سپریم کورٹ پر حکمران جماعت تنقید کررہی ہے اسی سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپر ملز کیس کھولنے کیلیے نیب کی درخواست یہ کہہ کر مسترد کردی کہ اپیل دائر کرنے کا وقت ختم ہوچکا ہے۔ سپریم کورٹ نے ایل این جی کرپشن اسکینڈل میں ملوث موجودہ وزیراعظم موصوف سے تاحال جواب طلب نہیں کیا۔ اور پچھلے ہفتے اس سسلسلے میں شیخ رشیدکی اپیل مستردکردی. سپریم کورٹ نے تاحال سانحہ ماڈل ٹاون کا ازخود نوٹس نہیں لیا۔ اعلیٰ عدلیہ سے جتنا ریلیف شریف خاندان کو ملا اتنا کسی اور خاندان کو کبھی نہیں ملا۔ مجموعی طور پر شریف خاندان کو ان عدالتی فیصلوں سے سیاسی فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ نوازشریف کی نااہلی کافیصلہ جس انداز میں آیا وہ ن لیگ کو اداروں سے محاذآرائی کاموقع دے گیا۔ آئندہ عام انتخابات کامنشور "کیوں نکالا"کی صورت میں دیدیا۔ حدیبیہ پیپرملز کیس بند کرکے شریف خاندان کو اپنی بدعنوانی چھپانے کاموقع دے دیاگیا۔ سانحہ ماڈل ٹاون کو نظر انداز کرکے شہبازشریف کو یہ موقع دیدیاگیاکہ وہ آئندہ عا م انتخابات میں ن لیگ کی سیاسی ساکھ کو سنبھالا دے سکیں۔

یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں

ابھی سپریم کورٹ کی طرف سے نااہلی کی معیاد کے تعین کافیصلہ آنا باقی ہے۔ جو نواز شریف کی نااہلی کی معیاد کا تعین کریگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس کیس کا کیا فیصلہ سنائے گی؟؟؟ میں اعلیٰ عدلیہ اور معزز صاحبان کے فیصلوں کا بہرحال احترام کرتی ہوں۔لیکن میں اس پر کیا کہوں کہ شریف خاندان نے ہمیشہ من چاہے فیصلے لینے کیلیے عدلیہ پر سیاسی دباو ڈال کر اثرانداز ہونے کی کوشش کی ہے۔ من چاہے فیصلے نا آنے کی صورت میں تصادم اور محاذآرائی کا راستہ اختیار کیاہے۔ ماضی میں حکمران جماعت سپریم کورٹ پر حملہ بھی کرچکی ہے۔ من چاہے فیصلے لینے کی عادی ن لیگ سپریم کورٹ سے مذکورہ بالا ریلیف لینے کے باوجود اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور معزز جج صاحبان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ سپریم کورٹ اور نیب عدالتوں کو ایک مرتبہ پھر گھیرنے کی تیاری کی جاچکی ہے۔ اور اس بار عوامی نمائندوں کے ووٹ کی طاقت کو ہتھیار بناکر سپریم کورٹ پر دباو ایک ایسے وقت میں بڑھا دیا گیا ہے جب کہ نااہلی کی مدت کے تعین کے حوالے سے ایک اہم فیصلہ جلد متوقع ہے۔ یہ فیصلہ نوازشریف کی نااہلی کی معیاد کا تعین کر دے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ کیا فیصلہ سناتی ہہے؟؟؟ آج بلاشبہ سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 بل میں پولیٹکل پارٹیز ایکٹ کی شق 203کو کالعدم قرار دے کر ایک تاریخی فیصلہ دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ کوئی نااہل شخص پارٹی صدر نہیں بن سکتا۔ چنانچہ اب نوازشریف پارٹی صدارت سے محروم ہو چکے ہیں۔ اور یہ ہی نہیں نااہلی کے بعد بطور پارٹی صدر ان کے کیے گئے فیصلے بھی کالعدم ہوگئے ہیں۔ یہ سپریم کورٹ کی طرف سے ایک بہت ہی مؤثر جواب ہے حکمران جماعت کو کہ اب سیاسی دباو یا دھمکیوں سے عدالتی فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہوا جا سکتا۔ اور ایسا ہی ہونا چاہئے۔ 

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -