بلاٹکٹ سینیٹ الیکشن ،ن لیگ کو فرق نہیں پڑے گا،پارٹی عہدہ اہم نہیں ،کبھی کانگرس کے رکن نہ رہنے والے گاندھی کی تصاویر بھارتی نوٹوں پر چھپتی ہیں 

بلاٹکٹ سینیٹ الیکشن ،ن لیگ کو فرق نہیں پڑے گا،پارٹی عہدہ اہم نہیں ،کبھی ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


تجزیہ :سعید چودھری 
سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کومسلم لیگ (ن) کی صدرات کے عہدہ سے نااہل قرار دیئے جانے کے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے نتیجہ میں آئندہ ماہ ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کے پارٹی ٹکٹ بھی کالعدم ہوگئے ہیں ۔اس بابت گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین راجہ ظفر الحق کے دستخطوں سے ان امیدواروں کو دوبارہ پارٹی ٹکٹ جاری کئے گئے جو الیکشن کمشن نے قبول نہیں کئے ۔اب یہ امیدوار آزاد حیثیت سے سینیٹ الیکشن میں حصہ لیں گے ۔کیا آزاد حیثیت سے ان امیدواروں کے سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے سے مسلم لیگ (ن) کو کوئی فرق پڑے گا؟ کیا پارٹی کی صدارت سے ہٹائے جانے کے بعد میاں محمد نوازشریف کی اہمیت میں کمی ہوجائے گی؟ کیا لودھراں کے قومی اسمبلی اور چکوال کے صوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخابات اس بنا پر کالعدم ہوسکتے ہیں کہ وہاں سے جیتنے والے ارکان اسمبلی مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ ہولڈر تھے ؟
 مسلم لیگ (ن) کے جوامیدواراب آزاد حیثیت سے سینیٹ الیکشن میں حصہ لیں گے ،انہیں اب بھی صوبائی اسمبلی کے وہی ارکان منتخب کریں گے جنہوں نے انہیں پہلے ووٹ دینا تھا۔مسلم لیگ (ن) کے ارکان صوبائی اسمبلی اپنی پارٹی پالیسی کو ہی فالو کریں گے اور کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ وہ پارٹی کے نامزد کردہ کسی امیدوار کو اس بنا پر ووٹ نہ دیں کہ ان کے پاس پارٹی کا ٹکٹ نہیں ہے ۔آئین کے تحت سینیٹ کے کسی امیدوار کی اہلیت کی شرائط میں اس کا پارٹی ٹکٹ ہولڈر ہونا ضروری نہیں ۔آئین کے تحت آزاد امیدوار کی حیثیت سے منتخب ہونے والا کوئی بھی رکن پارلیمنٹ کسی بھی جماعت میں شامل ہوسکتا ہے ،قانون میں آزاد رکن پر کسی جماعت میں شامل ہونے پر کوئی قدغن نہیں ہے ۔آئین کے آرٹیکل 63(اے)کے تحت کسی ایک پارلیمانی پارٹی کا رکن کسی دوسری سیاسی جماعت میں شامل ہوجائے تو وہ نااہل ہوسکتا ہے ،اس کا طریقہ کار آئین میں دیا گیا ہے جبکہ آزاد رکن کی کسی سیاسی جماعت میں شمولیت پر آرٹیکل63(اے)کا اطلاق نہیں ہوتا۔ایسی صورت میں یہ پیشگوئی کرنا مشکل نہیں ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے نامزد کردہ آزاد امیدوار سینیٹر منتخب ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوجائیں گے ۔جہاں تک لودھراں اورچکوال کے ضمنی انتخاب میں کامیاب ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کا تعلق ہے ،انہیں بھی میاں محمد نوازشریف کے دستخطوں سے ٹکٹ جاری کئے گئے تھے ،سپریم کورٹ نے میاں نوازشریف کی بطور وزیراعظم 28جولائی2017ءکے بعد بطور پارٹی صدر کئے گئے اقدامات کو بھی کالعدم کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ ان دونوں حلقوں کے امیدواروں کے ٹکٹ بھی کالعدم تصور کئے جاسکتے ہیں ۔انتخابی قوانین اور آئین کی روح کے مطابق ان منتخب افراد کا الیکشن کالعدم نہیں ہوا تاہم ان کا مسلم لیگ (ن) سے تعلق معطل ہوگیا ہے اور ان کی حیثیت آزاد ارکان کی سی ہوگئی ہے تاہم انہیں اختیار حاصل ہے کہ وہ دوبارہ مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرکے سرکاری بنچوں پر بیٹھے رہیں ۔وہ آزاد حیثیت سے بھی اتحادی ہونے کی بنا پر ان بنچوں پر بیٹھے رہ سکتے ہیں ۔جہاں تک حلقہ پی پی 30سرگودھا میں ہونے والے ضمنی انتخابات کا تعلق ہے تو وہاں مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ ہولڈر بھی اب ن لیگ کا امیدوار نہیں رہا ،اسے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑنا ہوگا ۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے مرکزی راہنماﺅں اور کارکنوں کی طرف سے میاں محمد نوازشریف کے ساتھ جس طرح اظہار یکجہتی کیا جارہا ہے ،اس کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ پارٹی عہدیدار نہ ہونے کے باوجود میاں نوازشریف کو مسلم لیگ (ن) میں مرکزی حیثیت حاصل ہوگی ۔ایسی کئی شخصیات کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے جنہوں نے کسی سیاسی جماعت کا رکن نہ ہوتے ہوئے بھی سیاسی اور معاشرتی طور پر انتہائی اہم کردار اداکیا ،اس کی ایک مثال کرم چند موہن داس گاندھی ہیں جو کانگرس کے کوئی عہدیدار تو کیا اس کے رکن تک نہیں تھے ،اس وقت رکن سے چارآنے چندہ لیا جاتا تھا ،گاندھی کہا کرتے تھے میں تو کانگرس کا چار آنے کا رکن بھی نہیں ہوں ۔اس کے باوجود گاندھی کو بھار ت میں مہاتما کا درجہ حاصل ہے اور وہاں کے کرنسی نوٹوں پر ان کی تصویر چھپتی ہے ۔
پرویز مشرف کے دورحکومت میں بھی نااہلی کی بنا پر انہیں مسلم لیگ (ن) کی صدارت چھوڑنا پڑی تھی ،اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) ان کی رہبری میں قائم رہی اور دوبارہ برسراقتدار آئی ۔پرویز مشرف کے دور حکومت میں قانون میں یہ شرط موجود تھی کہ جو شخص اسمبلی کی رکنیت کے لئے نااہل ہوگا وہ کسی پارٹی کا عہدیدار نہیں ہوگا،علاوہ ازیں مشرف حکومت نے یہ قانون بھی متعارف کروایا تھا کہ امیدوار کا کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے موقع پرریٹرننگ افسر کے سامنے موجود ہونا ضروری ہے جو اس میں ناکام رہے وہ نااہل ہوگا،اس بنا پر بے نظیر بھٹو ، نوازشریف اورشہباز شریف اسمبلی کی رکنیت اور پارٹی قیادت کے لئے نااہل قرار پائے تھے ۔پارٹی قیادت سے قانونی طور پر نااہل ہونے کے باوجود ان لوگوں نے عملی طور پر اپنی جماعتوں کی قیادت کی اور انہیں زندہ رکھا۔
جہاں تک میاں نوازشریف کو مسلم لیگ (ن) کی صدارت سے الگ کرنے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کا تعلق ہے ،اس حوالے سے ایک غلط فہمی پیدا کی جارہی ہے کہ پارٹی صدارت سے متعلق الیکشن ایکٹ مجریہ 2017ءکے سیکشن 203اور232سپریم کورٹ نے کالعدم کردیئے ہیں ،یہ درست نہیں ہے ،سپریم کورٹ نے کوئی قانون یا اس کی شق کالعدم نہیں کی بلکہ یہ تشریح کی ہے کہ سیکشن 203اور232کو آئین کے آرٹیکل 62،63اور63(اے)کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے گا ۔الیکشن ایکٹ مجریہ2017ءسے قبل قانون میں یہ شرط عائد تھی کہ جو شخص پارلیمنٹ کی رکنیت یا عوامی عہدہ کے لئے نااہل ہے وہ کسی سیاسی جماعت کا عہدیدار نہیں ہوسکتا ۔الیکشن ایکٹ کے ذریعے اس شق میں ترمیم کردی گئی اور کہا گیا کہ پاکستان کا شہری سیاسی جماعت کا صدر یا عہدیدار ہوسکتا ہے ۔اس قانون میں نااہلیت کی شرط ختم ہونے کے بعد میاں نوازشریف کو دوبارہ پارٹی صدر منتخب کیا گیا تھا ،اب سپریم کورٹ نے اس قانون کی تشریح کرتے ہوئے قراردیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل63(اے)کے تحت پارٹی کے سربراہ کو ایسے اختیارات حاصل ہیں جن کے تحت وہ ارکان اسمبلی کو کنٹرول کرسکتا ہے ،حتیٰ کہ وہ فلور کراسنگ پر اپنی جماعت کے کسی رکن اسمبلی کونااہل بھی قراردلوا نے کا اختیار رکھتا ہے ۔سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ جو شخص اسمبلی کی رکنیت کا اہل نہ ہو ،اسے مذکورہ اختیارات استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ،اس لئے اسے کسی پارٹی کاسربراہ بھی مقرر نہیں کیا جاسکتا۔جہاں تک الیکشن ایکٹ مجریہ2017ءکے سیکشن 203اور232کو کالعدم قرار دینے کے بلاجواز تاثر کا تعلق ہے اگر ایسا ہوجاتا تو سیاسی جماعتوں کے عہدوں اور سربراہی کا قانون ہی ختم ہوجاتا۔
 
 
 
 
 

مزید :

تجزیہ -