عدل کا پُر عدل چہرہ

عدل کا پُر عدل چہرہ
عدل کا پُر عدل چہرہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

محترم قارئین،اللہ کی مہربانی سے ہماری عدلیہ کا اداکار و ریاکار چہرہ تبدیل ہو کر تادم تحریر پر عدل شکل اختیار کئے ہوئے ہے جس کو عوام بھی محسوس کر رہے ہیں۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان نے محض ذاتی شہرت اور اپنی اناء کو مد نظر رکھ کر جس طرح عدل کی توہین کی وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ 17 جنوری کے بعد اب وہ سب کچھ جو انہوں نے کیا خود ان کی ذات کے لئے پریشانی اور پشیمانی کا باعث بنا رہے گا۔

کرسی کے خمار سے نکل کر انکو علم ہوا ہوگا کہ ان کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ حیثیت اس کرسی کی تھی جس پر بیٹھ کر اگر سیاست کی بجائے انصاف کرتے تو شاید دلوں کے چیف ہوتے لیکن انہوں نے جو کیا دلوں میں مقام بنانے کی بجائے نظروں سے ہی اوجھل ہو گئے اور کچھ ہی عرصہ بعد اپنے گھر کے دروازے میں کرسی ڈال کر انتظار کریں گے کہ کوئی بھولا بسرا آ کر ان سے دو لفظ ہی بول لے۔ یہ مکافات عمل ہے اور ثاقب نثار صاحب اسی مکافات عمل کا شکار ہوں گے۔

ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بہت سے لوگوں نے ان کی ذات اور پالیسیوں پر تنقید کی مگر ’’القانون‘‘ ہمہ وقت نشاندہی کرتا رہا اور دسمبر میں باقاعدہ لکھ دیا تھا کہ بزدل لوگ تنقید کے لئے آپ کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کر رہے ہیں مگر القانون آپ کی موجودگی اور تمام تر کروفر کے باوجود آپ کے سامنے کلمہ حق بلند کرتے ہوئے آپ پر تنقید کر رہا ہے کہ آپ نے عدل کی سب سے بلند کرسی پر بیٹھ کر اپنے عہدے اور مرتبے کا خود احترام نہیں کیا۔
ثاقب نثار صاحب! جس طرح تحریک انصاف کے لئے آپ نے انصاف کی دھجیاں اڑائیں، اسی تحریک انصاف نے آپ کو ڈیم سے بے دخل کر کے آپ کی تمام آرزوؤں اور ارمانوں کی دھجیاں اڑا دیں اور آپ ڈیم کے لئے ٹینٹ لگا کر حفاظت کرنے کی بجائے اپنے گھر اس طرح سدھار گئے کہ آپ کا نام ہی اس مہم سے مٹا دیا گیا جس کو آپ اپنی کامیابی سمجھ رہے تھے۔

ڈیم بنے گا یا نہیں، بن سکتا ہے یا نہیں، یہ حکومت کا کام ہے عوام کو جوابدہ حکومت ہے آپ زیادہ سے زیادہ حکومت کو احکامات دے سکتے ہیں مگر جس طرح خود کو عمران خان بنانے کے لئے آپ نے اپنی ذمہ داریوں سے انحراف کرتے ہوئے غیر قانونی اور غیر آئینی طور پر عدل و انصاف کے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عوامی لیڈر بننے کی کوشش کی اس سے نہ تو اپنے عہدے سے انصاف کر سکے اور نہ ساکھ بنا سکے اور ڈیم کے افتتاح کی حسرت دل میں لے کر گھر سدھار گئے۔
حکومتیں عوام کے ووٹ سے بنتی ہیں، عوام کو جوابدہ ہوتی ہیں۔ موجودہ سنگین معاشی حالات میں کسی بھی حکومت کی ترجیح معاشی استحکام ہو گی کیونکہ معاشی استحکام کے بغیر کوئی منصوبہ نہیں شروع ہو سکتا۔ چودہ سو ارب کے منصوبے کے لئے 13 ارب خرچ کر کے 9 ارب اکٹھے کر کے جس میں زیادہ تر بھتہ کی رقم شامل ہے آپ نے کون سا تیر مار لیا جس طرح موجودہ چیف جسٹس نے آپ کی موجودگی میں یہ کہا کہ وہ ڈیم بنائیں گے مگر عدل کی راہ میں رکاوٹوں کے سامنے بنائیں گے، یہ وہ وژن ہے جو وقت کی اہم ضرورت ہے اور القانون چیف جسٹس صاحب کے اس وژن کو بھرپور سراہتے ہوئے امید کرتا ہے کہ اپنے مختصر دورانیئے میں وہ پچھلے دور کی قباحتوں سے خود کو دور رکھتے ہوئے اپنی اہلیت، قابلیت اور قد کاٹھ کے مطابق عدلیہ کے امیج کو بحال کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے تاکہ یہ تقابل آنے والے چیف جسٹس صاحبان کے لئے اپنی سمت درست رکھنے میں معاون ثابت ہو۔

القانون ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ القانون عدل و انصاف کے اعلیٰ ترین اصولوں اور سر بلندی کے لئے ہر اس قدم کی تائید کرے گا جس سے عدل و انصاف اور کالے کوٹ کی عزت و آبرو میں اضافہ ہوا اور بلا کسی خوف ہر اس قدم پر تنقید کرے گا جو توہین عدل کے زمرہ میں آتے ہوں، خواہ وہ حکومت کی طرف سے ہو چیف جسٹس کی طرف سے ہو، عدلیہ کی طرف سے ہو یا وکلاء برادری سمیت کسی بھی جانب سے ہو۔
موجودہ چیف جسٹس کھوسہ صاحب کے بارے میں پچھلے ماہ تحریر کیا تھا کہ وہ مختلف جج ہیں۔ تعلیمی لحاظ سے بھی نمایاں رہے ہیں اور خاندانی لحاظ سے بھی ان کی شہرت بطور جج اتنی ہے اور ان میں اتنی قابلیت موجود ہے کہ وہ خود کو عدالتی تاریخ میں ایک سنہرے باب کے طور پر رقم کرا سکیں۔ ان کو ہسپتالوں کے دورے کی ضرورت ہے اور نہ سو موٹو لینے کی ضرورت ہے۔ ان کے ریکارڈ پر سب سے زیادہ مقدمات کا فیصلہ اور سب سے زیادہ ریلیف دینے کے فیصلے ان کو ممتاز بنانے کے لئے کافی ہیں۔

ان کا یہ مشن کہ وہ زیر التواء مقدمات کے خاتمے کے لئے کوشش کریں گے قابل تحسین ہے۔ اگر وہ تھوڑا بہت ماتحت عدلیہ پر بھی توجہ دیں جہاں نااہلیت بھی موجود ہے، کرپشن بھی موجود ہے اور عوام کا اعتماد بھی مجروح ہوتا ہے تو بہت بہتر ہوگا۔ اس کے علاوہ اگر وہ جوڈیشل ریفارمز خصوصاً غلط مقدمات پر سزاؤں اور جرمانے کے حوالے سے کوئی قدم اٹھا لیں تو عدلیہ پر بوجھ کافی حد تک کم ہو جائے گا اور غیر ضروری طور پر عوام کو پریشان کرنے کے رجحان کا بھی قلع قمع ہو جائے گا۔
آخر میں دوبارہ عرض کرتے ہیں کہ محترم چیف جسٹس صاحب کی قابلیت اور علمیت اپنی جگہ مگر عدالت میں ناولوں کے کرداروں سے مرعوب کرنے کی بجائے قانون کے حوالوں سے مرعوب کرنا شروع کریں تو زیادہ مناسب ہوگا۔ ہر وہ شخص جو کرسی پر بیٹھتا ہے وہ گارڈ فارد بن جاتا ہے یہ انسانی نفسیات کا حصہ ہے ان گاڈ فادر کو کنٹرول کرنے کے لئے احتساب اور انصاف کا نظام قائم ہے۔

بس محتسب اور منصف کو محتسب اور منصف رہنا چاہئے، خود گاڈ فادر کا لبادہ نہیں اوڑھنا چاہئے محترم چیف جسٹس صاحب نے ان مختصر ایام میں اپنا جو رویہ رکھا ہے جس طرح خودنمائی سے اجتناب اور عدالت میں بلا وجہ چیخ و پکار کر کے ہیڈ لائنز بنوانے سے اجتناب کیا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ تاریکی ختم ہو گئی ہے اور روشنی کی کرنیں ابھر رہی ہیں۔ اللہ کرے یہ اجلی دھلی صاف شفاف روشنی ہر سو پھیلے اور عدل کا راج ہو، عوام کا اعتماد ہو یہی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت ہوگا۔ (بشکریہ: القانون اسلام آباد)

Back to Conversion Tool

مزید :

رائے -کالم -