احتساب لازم مگر احترام انسانیت بھی اہم؟

احتساب لازم مگر احترام انسانیت بھی اہم؟
احتساب لازم مگر احترام انسانیت بھی اہم؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

احتساب کے عمل سے کسی کو کوئی اختلاف نہیں، حتیٰ کہ جو قابو آئیں وہ بھی انکار نہیں کرتے البتہ شکائت کرتے ہیں جس کی نوعیت نیب کے طرز عمل یا پھر امتیازی سلوک کے ذکر کی ہوتی ہے۔

اس لئے نیب نے کرپشن کے خلاف مہم کو تیز کیا تو یہ بھی درست ہے کہ سابق وزراء اعظم، سابق صدر اور بعض دوسری اہم شخصیات بھی اس سان پر رگڑی جا رہی ہیں، تاہم یہ ضرور کہا جا رہا ہے کہ ایسا کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ ماضی میں بھی ہوتا رہا، تب بھی یہی عمل اور یہی باتیں تھیں جو اب ہو رہی ہیں، تاہم جو طرز عمل اب اختیار ہوا اس پر دو پہلوؤں سے اعتراض ہو رہا ہے۔

ایک تو یہ کہ احتساب دو مخصوص جماعتوں کے اہم حضرات کا ہوتا چلا جا رہا ہے اور موافقت والوں کو پوچھا ہی نہیں جاتا بلکہ جن حضرات نے وقت کے دھارے کی رفتار اور سمت کا اندازہ لگایا انہوں نے حمائت ہی میں بہتری جانی اور نئے پاکستان کو خوش آمدید کہہ کر اس کے سائے تلے پناہ لے لی اور خود کو محفوظ کر لیا، معترض حضرات جب تنقید کرتے ہیں تو ان کے پاس یہی دلائل اور مثالیں ہوتی ہیں اور جب یہ سب کہا جاتا ہے تو پھر غور کے بعد اس میں سچائی دکھائی دینے لگتی ہے۔
نیب کا تازہ ترین شکار سندھ اسمبلی کے سپیکر آغا سراج درانی ہیں، جن کو گرفتار کیا گیا اور الزام یہ ہے کہ ان کے اثاثے ان کی آمدنی سے زیادہ ہیں اور اس سلسلے میں تین انکوائریاں ہو رہی ہیں۔سراج درانی کی گرفتاری پر ان کی جماعت اور رہنماؤں نے تنقید کی تو اس میں بھی زیادہ اعتراض نیب کے طرز عمل پر ہوا ہے، سراج درانی کے خلاف اگر تین مختلف انکوائریاں ہیں تو یہ کوئی گزشتہ ایک دو روز سے نہیں ہو رہیں؟ یہ پہلے سے جاری ہوں گی اور اس عرصہ میں سپیکر کراچی ہی میں ہوں گے لیکن ان کی گرفتاری اسلام آباد سے ہوئی جہاں وہ شادی کی کسی تقریب میں گئے تھے۔

سوال یہ کیا جا رہاہے کہ ایسا کیوں نہیں کیا گیا ان کو اسلام آباد ہی سے کیوں حراست میں لیا گیا؟ اور پھر کراچی میں ان کی رہائش گاہ میں آٹھ گھنٹے تک کیا الٹ پلٹ کی گئی کہ خواتین تک کو اندر محبوسی حالت میں رہنے پر مجبور کیا گیا اور ان سے سخت لہجے اور رعب کے ساتھ سوالات کئے گئے جیسے کسی فوجداری مقدمہ میں ملزموں سے پولیس سٹیشن میں کئے جاتے ہیں، احترام باہم بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی کا احتجاج اپنی جگہ بجا کہ سپیکر کوئی غیر اہم عہدہ نہیں، یہ ایوان کے اعتماد اور پورے صوبے کے اعتبار کا مظہر ہے اور پھر آغا سراج درانی تو اپنے آباء سے ایک قابل تعظیم خاندان سے تعلق رکھتے ہیں کہ ان کے والدین کا تحریک پاکستان میں بہت اہم کردار رہا۔

ان کو اس طرح گرفتار کرنے سے ماحول میں مزید تلخی پیدا ہوئی جو حالات حاضرہ میں غیر ضروری ہے۔ آج کل تو عبوری توجہ کا مرکز دوسرے امور بنے ہوئے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے تو یہ الزام بھی لگایا اور اسے دہرایا کہ ایف آئی اے اور نیب میں چن چن کر ایسے آفیسر تعینات کئے گئے جن کی پیپلزپارٹی سے مخاصمت واضح ہے اور پیپلزپارٹی کے اعتراض کے باوجود ان حکام سے کوئی باز پرس نہیں۔
موجودہ معروضی حالات کا اپنا تقاضا ہے کہ ملک کے اندر مکمل اتفاق رائے پیدا ہو جائے اور کم از کم قومی مسائل پر کوئی اختلاف بھی نہ سامنے آئے۔ لیکن جو سلوک اور طرز عمل نیب اور ایف آئی اے کا ہے وہ اس ضروری ’’اتفاق رائے‘‘ پر پورا نہیں اترتا۔ سراج درانی کی گرفتاری سے پیپلزپارٹی کے اندر تلخی پیدا ہو جانا بھی کوئی غیر فطری امر نہیں۔

اور اسی لئے آصف علی زرداری سرگرم ہوئے تو مراد علی شاہ نے بھی پارٹی اجلاس بلا لیا ہے، بلاول بھٹو نے لندن اور آصف علی زرداری نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرکے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اور احتجاج کیا ہے۔ہم تسلسل سے اپنی اس رائے کا اظہار کرتے چلے آئے ہیں کہ حالات حاضرہ میں تو ہر گز ہرگزکسی کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور کل قومی اتفاق رائے کے مطابق عمل ہونا چاہیے۔

وزیراعظم عمران خان کو اب غور کرنا ہو گا کہ احتساب کے عمل کی حقیقی شکل کیا ہو گی اور اسے سیاست اور انتقام سے ماورا ہونا چاہیے اور سب کے لئے ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ احتساب کا عمل جاری رہے گا اور رکے گا نہیں تو یہ جذبہ بھی قابل تعریف ہے لیکن جو حضرات خود ان کی صفوں میں گھس بیٹھئے ہیں ان کو کون پوچھے گا، صرف عبدالعلیم خان ہی کی مثال کافی نہیں اور بھی بہت سے حضرات پی ٹی آئی میں محض اس لئے چلے گئے کہ نیب کی نظر ان کے اثاثوں پر نہ جائے۔
وزیراعظم عمران خان مطمئن ہیں اور ان کو ہونا بھی چاہیے کہ آج کل ان پر اللہ کا کرم نظر آتا ہے لیکن وہ خود اپنی جماعت کی صفوں پر بھی تو نظر ڈال لیں۔ جہاں ہر روز کوئی نیا منظر نظر آتا ہے، جیسے اب فواد چودھری اور نعیم الحق کے درمیان ہوا اور مکالمے بازی عوام کے سامنے ہوئی ایسا کئی اور امور میں بھی ہے اور یہ کوئی غیر فطری تو نہیں لیکن حالات حاضرہ میں یہ بھی بہت کچھ بتا اور سمجھا رہا ہے۔

یوں بھی فرزند راولپنڈی جب چالیس لوگوں کی گرفتاریوں کی بات کرتے ہیں اور پھر ایسا شروع بھی ہو جاتا ہے تو شکوک کا پیدا ہونا لازمی ہے ان حضرات کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مکافات عمل بھی کوئی چیز ہے؟ یوں بھی نیب کے قانون میں تو استغاثہ الزام لگاتا ہے اور ملزم صفائی دیتا ہے، نیب کہے گا، فلاں فلاں جائیدادیں آپ کی ہیں اور ثابت کریں کہ یہ کرپشن کی برکات نہیں ہیں؟۔۔۔تازہ ترین یہ ہے کہ نیب نے بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کو بھی حراست میں لینے کا طے کر لیا ہے، صرف وقت کا انتظار ہے۔ زرداری تو خود کہتے ہیں کہ وہ جیل سے نہیں گھبراتے، تاہم جو بھی ہو وہ اخلاق اور انسانی حقوق کے دائرے میں ہونا چاہیے۔

مزید :

رائے -کالم -