شہری کے گھر دھاوا‘ بچوں کو ہراساں کرنے پر پولیس افسروں‘ اہلکاروں کیخلاف مقدمہ درج کرنیکا حکم
رحیم یار خان (بیورو رپورٹ) ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے تھانہ اے ڈویژن کے مقدمہ منشیات 710/2019 میں ویڈیو کلپس ثبوت کے تحت جھوٹا مقدمہ درج کرنے، (بقیہ نمبر21صفحہ12پر)
عدالت کو گمراہ کرنے اور چادروچاردیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے شریف شہری سمیت اہلخانہ اور معصوم بچوں کو حراساں کرنے والے پولیس افسران و اہلکاران کے خلاف مقدمہ درج کرنے اور عدالت کو رپورٹ کرنے کے احکامات جاری کردیے ہیں پولیس تھانہ اے ڈویژن کے سب انسپکٹر جام احسان،اسسٹنٹ سب انسپکٹر وحید، کانسٹیبل رانا احسان اور چار نامعلوم الاسم کانسٹیبلز نے محلہ ملک فیروز دین کی رہائشی نسرین اختر کے گھرپر دھاوا بول دیا اور بغیر سرچ وارنٹ کے چادروچاردیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے جاوید عرف جیدا کو منشیات کا ڈیلر قراردیتے ہوئے اسے گرفتار کیا، بچوں اور اہلخانہ کو حراساں کیا اور 17نومبر 2019کو تھانہ اے ڈویژن میں مادہ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرلیاتھا جس پر سائلہ نسرین اختر نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج میں رٹ دائر کرکے موقف اختیار کیا اور ویڈیو ثبوت فراہم کیے جس کے تحت فاضل عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے مقدمہ کو جھوٹ پر مبنی قراردیا اور کہا کہ پولیس نے مبینہ واقعے کے کمیشن کی نفی کی ہے اور اس میں موقف اختیار کیا ہے کہ درخواست گزار کا شوہر یعنی جاوید عرف جیدا منشیات فروش تھا، لیکن کھلی عدالت میں دکھائی جانے والی ویڈیو کلپس نے یہ ظاہر کیا ہے کہ مبینہ ملزمان (پولیس) نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اس کی وجہ سے درخواست گزار اور اس کے نابالغ بچوں کو ہراساں کیا گیاویڈیو کلپس میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ درخواست گزار پولیس سے التجا کررہا تھا کہ وہ گھر میں داخل ہونے سے پہلے اپنے مرد کا انتظار کرے لیکن پولیس زبردستی سرچ وارنٹ کے بغیر گھر میں گھس گئی۔فاضل عدالت نے کہا کہ اس ملک کے آئین میں پاکستان کے ہر فرد و شہری کی زندگی اور آزادی کی ضمانت دی گئی ہے جسے اسکے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ مجوزہ ملزمان پولیس افسران / اہلکار تھے جنھیں یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ قانون پروٹیکٹر ہیں لیکن انہوں نے خود ہی غیر قانونی حرکت کا ارتکاب کیا ہے اور اس کو قانون کی عدالتوں نے بھی دھیان نہیں دیا جاسکتا۔ اس طرح، فوری درخواست کی اجازت دی گئی ہے اور ڈی پی او رحیم یار خان کو درخواست گزار کے ذریعہ دکھائے جانے والے ویڈیو کلپوں میں مجرموں / پولیس افسران / عہدیداروں کی شناخت کرنی ہوگی اور اس کے بعد اس عدالت کو اطلاع کے تحت مقدمہ درج کرنا ہوگا۔
حکم