شیخوپورہ کے بتی چوک پر بدکاری کے اڈے!
قتل، ظلم و جبر، جھوٹ، دھوکہ اور چوری وڈکیتی کی طرح بداخلاقی بھی ایک ایسا جرم عظیم ہے کہ تمام مذاہب میں نہ صرف سختی کے ساتھ اس بڑے گناہ سے منع کیا گیا ہے، بلکہ بداخلاقی کرنے والے مرد وعورت کے لیے سخت سے سخت سزا بھی متعین کی گئی ہے۔ نہ صرف اسلام بلکہ عیسائی اور یہودی مذہب میں بھی اس جرم عظیم کے مرتکبین کی سزا رجم (سنگ باری) ہے۔ یہ ایسا بڑا گناہ ہے کہ دنیامیں اس سے زیادہ بڑی سزا کسی دوسرے جرم کی تجویز نہیں کی گئی کیونکہ دنیا کے وجود سے لے کر آج تک تمام انسانی معاشروں نے اس جرم عظیم پر نہ صرف لعنت بھیجی ہے بلکہ ایسے اعمال سے بچنے کی تعلیم بھی دی ہے جو بداخلاقی کی طرف لے جانے والے ہوں۔ انسانی فطرت بھی خود زنا کی حرمت کا تقاضا کرتی ہے ورنہ انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے وہ جانوروں کی صف میں کھڑا ہوجائے گا۔ دنیا کی بقا ء بھی اسی میں ہے کہ بداخلاقی کو حرام قرار دیا جائے اور اس کے مرتکبین کو عبرت ناک سزا دی جائے۔ شہریوں کو یہ بات سن کر افسوس ہو گا کہ شیخوپورہ بتی چوک جو کہ شیخوپورہ کا گنجان ترین اور مصروف ترین پوائنٹ ہے جہاں پر ہر وقت پولیس جوان ڈیوٹیاں دیتے ہیں اور تھانہ صدر محظ چند فرلانگ کے فاصلے پر قائم ہے کسی بھی شہر یا پنجاب کے دیگر اضلاع کی طرف سفر کرنا ہو تو اسی بتی چوک جس کا نام تبدیل کر کے تاجدار ختم نبوت چوک بھی رکھا گیا ہے سے گزر کر جاناپڑتا ہے اسی چوک میں قائم ہوٹلز کے نا م پر فحاشی کے اڈے قائم ہیں جہاں وی آئی پی ماحول میں فحاشی کا کاروبار دھڑلے سے جاری ہے سارا دن جوڑے ان ہوٹلز میں کمرے بک کروا کر عیاشی کرتے ہیں شراب نوشی، دن رات عیاشی ہوتی ہے اور ہوٹلز کے نام پر فحاشی کے ان اڈوں میں سرعام عیاشی و عریانی کا ننگا ناچ ہو رہا ہے جنہیں مبینہ طور پر مقامی انتظامیہ سمیت سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے متعدد ملازمین و آفیسران کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ فحاشی کا یہ دھندہ اس قدر کھلم کھلا چل رہا ہے کہ آوارہ اور بد چلن قسم کے لڑکے لڑکے لڑکیوں سمیت اچھے بھلے کھاتے پیتے گھرانوں کے نوجوان لڑکے لڑکیاں سکول، کالجز کے طلباء و طالبات ان ہوٹلوں کے کمروں میں دن گزار کر گھروں کو چلے جاتے ہیں یہ معلوم ہوا ہے کہ پولیس کی پشت پناہی کی وجہ سے پولیس کے ملازمین لڑکے اور لڑکیاں ان ہوٹلوں کے مالکان کو تحفظ اس وجہ سے بھی فراہم کرتے ہیں کہ وہ انہیں فری میں کمروں میں ٹائم گزارنے کی اجازت دیتے ہیں یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ بتی چوک شیخوپورہ کے 2 پولیس اسٹیشن جن میں تھانہ سٹی اے ڈویثرن اور تھانہ سٹی بی ڈویثرن شامل ہیں کی حدود میں یہ ہوٹلز قائم ہیں جبکہ تھانہ صدر شیخوپورہ ان ہوٹلز سے محظ چند فرلانگ کے فاصلے پر واقع ہے پھر بھی ان تھانوں کے ایس ایچ اوز اور دیگر پولیس ملازمین ان ہوٹل مالکان کے خلاف کاروائیاں کر کے ان فحاشی کے اڈوں کو بند نہیں کرتے ہیں بلکہ الٹا انہیں مکمل تحفظ کیا جاتا ہے۔
اگر ان فحاشی کے اڈوں کے خلاف کوئی شریف شہری شکائت کرتا ہے تو الٹا پولیس اس شہری کو ذلیل و خوار کر کے ڈراتی دھمکاتی ہے شہریوں کے مطابق پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھر اور دیگرجائیدادیں فروخت کر کے اپنی بچیوں اور نوجوان بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجنے والے والدین کی عزتوں کو تار تار ہونے سے بچائیں مگر چند روپوں کی خاطر بعض پولیس ملازمین ان ہوٹلز کے مالکان سے بخشیش کی صورت میں ملنے والی رقوم کے لالچ میں نہ صرف بدکاری کے مرتکب ہو رہے ہیں بلکہ بعض ملازمین بھی ہاتھ صاف کرنے سے گریز نہیں کرتے سرعام دن رات لوگ گاہکوں کے روپ میں ان ہوٹلوں میں آتے ہیں اور شراب کے نشے میں دھت ہو کر شراب اور شباب کی محفلیں سجتی ہیں جس کا پولیس کو مکمل پتہ ہوتا ہے بتی چوک جو کہ شہر کا گنجان ترین علاقہ ہے میں فحاشی کا یہ ننگا ناچ اور اعلیٰ افسران سمیت تینوں تھانوں کی پولیس کی مبینہ طور پر خاموشی بہت بڑا المیہ ہے مجموعی طور پر عوامی سماجی حلقے ان ہوٹلز میں ہونے والی فحاشی سے بے حد پریشان ہیں مگر شہری ہوٹلز مالکان کے بااثر ہونے کی وجہ سے بے بس ہیں دینی و ادبی حلقوں نے ان ہوٹلوں کے کمروں میں ہونے والی فحاشی کی سخت الفاظ میں مزمت کی ہے اور دھمکی دی ہے کہ پولیس بتی چوک شیخوپورہ میں قائم ہوٹلوں میں فحاشی کو فی الفور کنٹرول کریں اور شہریوں کی عزتوں کو نیلام ہونے سے بچایا جائے مذہبی ارکان کا کہنا ہے کہ ایسانا ہو کہ دینی جماعتوں کو ان فحاشی کے اڈوں کے خلاف کھڑا ہونا پڑے۔ اس حوالہ سے جب میڈیا ٹیم کے ارکان نے بھی گاہکوں کا روپ دھار کر جب ایک ہوٹل کا وزٹ کیا تو وہاں پر موجود ملازمین نے با آسانی ہوٹل کے کمروں میں فحاشی و عیاشی کی اجازت دے دی کمروں کو دیکھا گیا تو وہاں پر بیڈ لگے ہوئے تھے کمروں میں اٹیچ باتھ بھی بنائے گئے ہیں اور کمروں میں متعدد غیر ممنوعہ اشیاء بھی موجود پائی گئیں ہوٹل ملازمین کے مطابق وہ کمرے کا کرایہ فی گھنٹہ دو ہزار روپے سے پانچ ہزار روپے تک چارج کرتے ہیں اور اگر رات بھر کے لئے کمرہ بک کروانا ہو تو بھاری رقم دینا پڑتی ہے بعد میں ہوٹل کے مالک سے ملاقات ہوئی تو اس نے دھمکی آمیز رویہ میں کہا کہ لاہور، اسلام آباد، کراچی، جیسے بڑے شہروں کے ہوٹلوں میں دھندہ چلتا ہے مگر پولیس سمیت دیگر سرکاری و غیر سرکاری ادارے کچھ نہیں کر پاتے اگر شیخوپورہ میں لوگوں کی سہولیت کے لئے چند ہوٹلوں میں کچھ ایسا ہو رہا ہے تو میڈیا اور انتظامیہ کو اتنی تکلیف کیوں ہوتی ہے اور اس بات کو اتنا کیوں اچھالنے کی کوشش کی جاتی ہے ہوٹل مالک کا کہنا تھا کہ سرکار کو ٹیکس دیتے ہیں بلڈنگ کے مالکان کو کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے، ملازمین کے بھی اخراجات ہیں ہم نے اپنے خرچے بھی پورے کرنے ہوتے ہیں بعض سرکاری و غیر سرکاری ملازمین کو بھی منتھلیاں دینی پڑتی ہیں اس کام کو بند کر دیں تو ہم کہاں جائیں گے فحاشی کے اس کام کو بند کروانا اتنا آسان نہیں ہے اور نہ ہی پولیس بند کروا پائے گی۔
٭٭٭
”کالے دھندے روز روشن میں کئے جاتے ہیں“