بیس پریذائیڈنگ افسروں کی پُراسرار گمشدگی؟
الیکشن کمیشن نے این اے75 ڈسکہ کے ضمنی انتخاب کا نتیجہ روک لیا ہے،کیونکہ اس حلقے کے بیس پولنگ سٹیشنوں کے نتائج تاخیر سے ملے، عملہ چھ گھنٹے کے لئے لاپتہ رہا،اِس لئے نتائج میں ردوبدل کا خدشہ ہے، الیکشن کمیشن کے پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ متعدد بار پریذائیڈنگ افسروں سے رابطے کی کوشش کی گئی،لیکن رابطہ نہ ہو سکا،پریس ریلیز کے مطابق ان افسروں کا پتہ لگانے کے لئے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر اور ریٹرننگ افسر کی اطلاع پر چیف الیکشن کمشنر نے آئی جی پنجاب پولیس، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر سے رابطے کی کوشش کی، لیکن اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا گیا۔ الیکشن کمیشن کے بیان میں کہا گیا کہ چیف سیکرٹری سے رات تین بجے ایک مرتبہ رابطہ ہوا جس پر انہوں نے گمشدہ افسر اور پولنگ بیگز تلاش کر کے نتائج کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی،لیکن اس کے بعد وہ بھی دستیاب نہیں رہے۔بعدازاں کافی کوششوں کے بعد پریذائیڈنگ افسر مع پولنگ بیگز واپس آ گئے۔ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر اور ریٹرننگ افسر نے آگاہ کیا ہے کہ بیس پولنگ سٹیشنوں کے نتائج میں ردوبدل کا شبہ ہے،لہٰذا مکمل انکوائری کے بغیر حلقے کا غیر حتمی نتیجہ جاری کرنا ممکن نہیں۔ مزید یہ کہ اِس سلسلے میں ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر تفصیلی رپورٹ الیکشن کمیشن کو بھیج رہے ہیں،مکمل انکوائری اور ذمے داران کے تعین کی ہدایات کی گئی ہیں معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لئے صوبائی الیکشن کمشنر اور جوائنٹ صوبائی الیکشن کمشنر کو ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر اور ریٹرننگ افسرکے دفتر پہنچنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ ریکارڈ مکمل محفوظ کر لیا جائے۔الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزوری لگتا ہے، مکمل انکوائری کے بعد حلقے کا نتیجہ جاری کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔الیکشن کمیشن منگل(کل) کو رپورٹ کا جائزہ لے گا، ریٹرننگ افسر نے ابتدائی رپورٹ میں پولیس اور انتظامیہ کے کردار پر تحفظات ظاہر کئے۔
حالیہ دِنوں میں ملک کے چاروں صوبوں کے آٹھ حلقوں میں ضمنی انتخابات ہوئے ہیں،اتوار کو تھرپارکر میں قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں ضمنی انتخاب ہوا۔ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں کسی جگہ انتخاب والے دن کوئی زیادہ بدامنی دیکھنے میں نہیں آئی، صرف پنجاب کا این اے 75 ڈسکہ کا حلقہ ایسا تھاجہاں سارا دن فائرنگ کے واقعات ہوتے رہے اور بغیر نمبر پلیٹ کی موٹر سائیکلوں پر مشتبہ لوگ دندناتے رہے، اس فائرنگ سے دو افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، بہت سے زخمی ہوئے۔بدامنی کے اِن واقعات نے انتظامیہ اور پولیس کی صلاحیت پر سوال اٹھا دیئے اگر ایک حلقے میں انتخاب کے روز تسلی بخش انتظامات نہیں کئے جا سکتے تو تصور کیا جا سکتا ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں جب پورے صوبے میں ایک ہی دن انتخابات ہو رہے ہوں گے،امن و امان کے انتظامات کیسے تسلی بخش ہوں گے۔عام انتخابات کے بارے میں بھی یہی بات کہی جا سکتی ہے، لیکن اُس وقت تو نگران حکومت اور نگران انتظامیہ ہو گی،اِس لئے فی الحال ہم اس کا کردار زیر بحث نہیں لاتے۔ڈسکہ میں انتخابات والے دن جو کچھ ہوا وہ انتظامیہ اور پولیس کے لئے کوئی اچھا سرٹیفکیٹ نہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ بیس حلقوں کے پریذائیڈنگ افسر کہاں غائب ہو گئے تھے اِن افسروں کی گمشدگی، اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا،ان سب کے پولنگ سٹیشن تو الگ الگ مقامات پر تھے اور ظاہر ہے کہ وہ غائب بھی ہوئے تھے تو ایک ایک کر کے ہوئے ہوں گے،لیکن جب وہ پُراسرار گمشدگی کے چھ گھنٹوں بعد نمودار ہوئے تو اکٹھے آئے،اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی ایک ہی مقام پر رہے ہوں گے، یا رکھے گئے ہوں گے اور ”رہائی“ بھی اُنہیں اکٹھے ہی ملی، البتہ ان سب پریذائیڈنگ افسروں نے اپنی اپنی گمشدگی کی وجوہ الگ الگ بیان کیں، کسی نے دھند کا بہانہ کیا تو کسی نے عینک کی گمشدگی کا جواز ڈھونڈا، لیکن وہ جو فارسی میں کہتے ہیں ”دروغ گورا حافظہ نہ باشد“ یہ بیس کے بیس پریذائیڈنگ افسر شاید جواز گھڑتے ہوئے یہ بھول گئے کہ ان سب نے اپنے اپنے موبائل فون بھی بند رکھے ہوئے تھے یہ ”قدرِ مشترک“ تھی۔ توقع ہے کہ انکوائری کرنے والے افسر، ان سب صاحبان سے ضرور پوچھیں گے کہ چلئے یہ تو مان لیا کہ دھند کی وجہ سے راستہ تلاش کرنے میں دِقت ہوتی ہے،لیکن آج تک کبھی نہیں سُنا کہ دھند کی وجہ سے ایک دو نہیں اکٹھے بیس موبائل ہی بند ہو گئے،حالانکہ جب شاہراہوں پر دھند کے باعث راستے گم ہو جاتے ہیں تو موبائل فون ہی رابطے کا کام کرتے ہیں، دھند نے کبھی موبائل بیٹری کو بھی متاثر نہیں کیا۔پھر ان سب صاحبان سے یہ پوچھنا بھی بنتا ہے کہ وہ باجماعت کہاں سے تشریف لائے،اس کے بعد اگر الیکشن کمیشن کو شبہ ہے کہ نتائج میں ردوبدل ممکن ہے تو اس کی ٹھوس بنیاد موجود ہے،اب انکوائری کا آغاز ہو چکا ہے، توقع ہے کہ اس کے بعد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
یہ تو انتظامیہ، پولیس اور پریذائیڈنگ افسروں کی نااہلی یا مشکوک سرگرمیوں کا معاملہ ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ الیکشن والے دن خود پنجاب کی حکومت کہاں تھی۔ الیکشن کمیشن کے اعلان کے مطابق چیف سیکرٹری سے رات تین بجے رابطے ہوا اس کے بعد یہ بھی نہ ہو سکا، حالانکہ جہاں الیکشن ہو رہا تھا اور وہاں جو حالات پیدا ہو گئے تھے اس کے بعد تو آئی جی اور چیف سیکرٹری کو خود الیکشن کمیشن کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھنا چاہئے تھا، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا، لگتا ہے اُنہیں بھی کہیں سے ہدایات ملی ہوں گی کہ وہ الیکشن کمیشن کی رسائی میں نہ رہیں، غالباً ایسا اِس لئے کیا گیا ہو گا کہ حلقے میں ووٹ چوری کی جو منظم وارداتیں ہو رہی تھیں وہ بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہ سکیں،اس الیکشن نے حکومت کی نیت اور صلاحیت پر بھی سوال اٹھا دیئے ہیں،جو ایک حلقے کا الیکشن غیر جانبدای اور شفاف طریقے سے نہیں کرا سکتی اس سے اور کیا امید رکھی جا سکتی ہے۔ وفاقی وزیر ریلوے اعظم سواتی کے منہ سے سچی بات نکل گئی ہے، فرماتے ہیں ضمنی الیکشن تو ہم مہنگائی کی وجہ سے ہار گئے، البتہ سینیٹ کا انتخاب ہم ہی جیتیں گے۔سبحان اللہ کیا فراخ دلانہ اعترافِ حقیقت ہے،لیکن یہ مہنگائی تو مسلسل بڑھتی ہی چلی جاتی ہے،کیا اِس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ مہنگائی ہی دراصل حکومت کی جڑوں میں بیٹھنے والی ہے۔