جنرل اعظم خان مشرقی پاکستان میں کیوں مقبول ہوئے؟
ون یونٹ کے حوالہ سے مغربی پاکستان اور مرکز کی کچھ یادیں تازہ ہوئیں۔ اب ذرا ڈھاکہ جہاں 1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ قائم ہوئی اور قیامِ پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرنے والا یہ خوبصورت خطہ، چوبیس سال بعد نظریاتی بنیادوں کو بْھلا کر دوبارہ اپنی جغرافیائی حدود میں گم ہوگیا۔ایک منزل کے راہی جب بچھڑے تو اس عظیم مقصد اور جداگانہ تشخص سے بے نیاز ہوگئے جو دْنیا کی پہلی نظریاتی مملکت کی بنیاد تھے۔ سقوطِ ڈھاکہ کے سیاسی عوامل اپنی جگہ مگر یہ حقیقت ہے کہ پاکستان لیا تو اسلام کے نام پر گیا تھا، مگر یہاں اسلام نافذ نہ ہو سکا۔
ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے بقول علامہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔ پاکستان قائم ہوگیا مگر بانی ئ پاکستان، قائداعظم محمد علی جناح کا خواب حقیقت نہ بن سکا۔ ڈاکٹر صاحب اس موضوع پر بڑی جرأت اور دردمندی کے ساتھ بیداری کے لئے کوشاں رہے اور بانیانِ پاکستان سے جا ملے۔ قائداعظم کو پاکستان کی فکر کھا گئی اور اُن کے بعد آنے والے پاکستان کو کھانے میں مصروف ہیں۔
نام نہاد جمہوریت، تیسری دْنیا میں حکمرانوں کی من مانی اور عوام کی بدحالی کا نام ہے جہاں انصاف اور قانون ہاتھی کے دانت ہیں۔ کھانے کے اور دکھانے کے اوروزیراعظم محمد علی بوگرہ نے جون 1954ء میں، اسکندر مرزا کو گورنر مشرقی پاکستان بنا کر بھیجا اور جون 1955 میں واپس بْلا کر وزیر داخلہ مقرر کردیا۔ ڈھاکہ پہنچنے پر اْنہوں نے، فرزندِ بنگال ہونے کے باوجود یہ کہا تھا کہ وہ صوبہ میں امن قائم کرنے کے لئے سختی کریں گے۔ جبر اور بڑے پیمانہ پر گرفتاریاں، مشرقی پاکستان کے عوام کے دلوں میں مرکزی حکومت کے خلاف نفرت و بد دلی میں اضافہ کا سبب بنیں اور پھر بڑھتی چلی گئیں۔
اسکندر مرزا کا تعلق مْرشدآباد (بنگال) کے ایک با اثر اور خوشحال خاندان سے تھا۔ اْن کے برعکس چند سال بعد (اپریل 1960ء) اسی ڈھاکہ ائیرپورٹ پر ایک مغربی پاکستانی جنرل اْترا اورسْنہرے دیس میں سب کا محبوب بن گیا- اگلے ہی دن ایک مشہور انگریزی روزنامہ کے صفحہ اوّل کی شہ سْرخی تھی: He came, He saw, He conquered۔ وہ آیا، اْس نے دیکھا اور وہ چھاگیا”۔
یہ معروف اور تاریخی لاطینی الفاظ
(veni, vidi, vici) یعنی“میں آیا، میں نے دیکھا اور میں نے فتح کرلیا”، مشہور رومن حکمران جولیئس سیزر کے ہیں جو اْس نے ایک ایشیائی علاقہ (موجودہ تْرکی) فتح کرنے کے بعد کہے تھے اور ایک عالمی محاورہ بن چکے ہیں۔
مشرقی پاکستان میں اعظم بھائی کے نام سے لوگوں کے دلوں میں گھر کرنے والے، جنرل ایم اعظم خان، 27 اکتوبر 1958ء کے انقلاب کے ایک اہم رْکن اور مہاجرین کی بحالی و آبادکاری کے سینئر وزیر تھے جنہوں نے چھ ماہ کے مختصر عرصہ میں کراچی میں کورنگی کالونی قائم کرکے ہزاروں مہاجرین کو چھت فراہم کی اور لاہور میں دکانداروں کی ایک مارکیٹ کے قیام کو ممکن بنایا - اعظم کلاتھ مارکیٹ آج لاہور میں کپڑے کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے-
جنرل اعظم 14 اپریل 1960 کو مشرقی پاکستان کے گورنر مقرر ہوئے۔ نئے گورنر کی ڈھاکہ آمد اور اخباری خبروں بشمول انگریزی روزنامہ کی شہ سْرخی کے بارے میں روزنامہ نوائے وقت، لاہور میں لگ بھگ 30 سال پہلے شائع شدہ چند دلچسپ یادیں مضمون نگار اور اخبار کے شکریہ کے ساتھ نذرِ قارئین ہیں:
“ڈھاکہ ائیرپورٹ پر استقبال کے لئے آئے ہوئے سرکاری افسران سے پوچھا۔ آج کیا ہورہا ہے؟ اْنہیں بتایا گیا کہ وہ اپنے عہدے کا حلف اْٹھائیں گے پھر رسمی مْلاقاتیں وغیرہ - اور شہر میں کیا ہورہا ہے؟ ڈھاکہ یونیورسٹی میں شام کو فٹ بال کا میچ ہے۔ ٹھیک ہے، میں یہ میچ دیکھنے جاؤں گا۔
”یونیورسٹی گراؤنڈ میں چند طلباء نے احتجاج کرنے کی کوشش کی تو جنرل اعظم نے نرمی و پیار سے گفتگو کی- ایک مشتعل لڑکے نے کہا۔ تم ہمیں گولی مارنے کے لئے آئے ہو - گورنر نے جواب دیا- کوئی باپ اپنے بچوں کو گولی نہیں مارتا- پھر وہ طلباء میں گھل مل گئے۔ اور کہا کہ وہ کل شام اْن کے ساتھ، اْن کی کینٹین میں چائے پیئیں گے“۔
جنرل اعظم کی فعال ومتحرک شخصیت جلد ہی عوام میں مقبول ہوگئی۔ اْنہوں نے روایتی ایڈوانس سییکوریٹی ختم کردی اور اپنی سرکاری لیموزین جس کے ساتھ ایک حفاظتی کار ہوتی، میں شہر کی سڑکوں پر نظر آنے لگے- اور بلا رکاوٹ آمدورفت جاری رہتی۔ وہ ماہی گیروں اور کسانوں کواپنا بھائی کہتے تھے اور اْن کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے میں تکلف نہ برتتے۔ وہ ایک اچھے سپاہی و اعلیٰ منتظم تھے جو معاملات کو سدھارنے اور سنوارنے کے لئے مشہور تھے-
بحیثیت چانسلر وہ طلباء کے مسائل میں گہری دلچسپی لیتے اور حل بھی کرتے۔ ایک ڈاکٹر،سلیم میر نے اپنے تاثرات میں لکھا۔”وہ 1962ء میں ڈھاکہ میڈیکل کالج میں پہلے سال کے طالبعلم تھے- اْن کے کالج میں کسی سرکاری افسر کا قدم رکھنا اور بالخصوص ایک مارشل لاء کے نمائندہ گورنر کا تو خارج از قیاس تھا۔ مگر جنرل اعظم خان کو یہ اعزاز خود سٹوڈنٹ یونین نے دیا۔ تقریب کے اختتام پر وہ طلباء کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے پاکستان کا قومی ترانہ پڑھ رہے تھے اور ان کے کہنے پر بنگلہ ترجمہ بھی پیش کیا گیا-
جب شیر بنگال مولوی فضلِ حق کا انتقال ہوا اور جنازہ رمنا پارک پہنچا تو بارش کی وجہ سے قبر تیار نہ تھی- یہ دیکھ کر گورنر اعظم خان آگے بڑھے اور بیلچہ لے کر خود کھدائی میں شریک ہوگئے۔ ان کی یہی عوامی سوچ و جذبہ لوگوں کے دلوں میں ان کی قدر و منزلت بڑھاتا چلا گیا اور یوں وہ وہاں پہلے مقبول ترین مغربی پاکستانی بن گئے-
سمیر نے اپنے بچپن کے تاثرات میں لکھا:“وہ اپنے والد اور بہنوں کے ساتھ شام کے وقت ائیرپورٹ روڈ پر ٹہل رہے تھے کہ گورنر کی مشہور گرین کیڈلک آتی نظر آئی جسے دیکھ کر ہم نے ہاتھ ہلانے شروع کر دیئے۔گاڑی آگے بڑھ گئی تو دیکھا گورنر کھڑکی سے سر نکالے ہوئے ہیں اور پلٹ کر ہماری طرف دیکھتے ہوئے ہاتھ ہلارہے ہیں - ہم بچوں کو یقین نہیں آرہا تھا کہ اتنی بڑی شخصیت نے ہمیں ہاتھ ہلایا- ہمیں یہ یاد ہے اور رہے گا اور یہ بھی کہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا سب کا احترام کرتے تھے۔ ایوب خان سے اْن کی مقبولیت دیکھی نہ گئی۔جنرل اعظم خان جب مْستعفی ہو کر واپس جانے لگے تو رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔ الوداع کہنے والوں کے آنسو اور سسکیاں روکے نہیں رْک رہی تھیں۔ اْنہوں نے اپنے دل گرفتہ چاہنے والوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا تھا کہ“جب آپ کو میری واپسی کی وجوہات کا علم ہوگا تو آپ فخر محسوس کرینگے”۔ وہ ایک سادہ اور کھرے انسان تھے جنہوں نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کو پیار و عزت دی اور ان سے کٹ کر نہیں رہے۔
محبت فاتح عالم ہے! جنرل اعظم یہ جانتے تھے اور پہلے مغربی پاکستانی رہنما تھے جو قدرتی آفات کے دوران نکل کھڑے ہوتے اور ذاتی نگرانی میں متاثرین کی دیکھ بھال و امدادی کام کا جائزہ لیتے اور اْن کا حوصلہ بڑھاتے۔ اْن کی یہی عوام دوستی اور مقبولیت مرکز کو نہ بھائی اور بالآخر اْن کے استعفیٰ کا سبب بنی- اور چند سال کے بعد مشرقی بازو کی علیحدگی کی بنیاد بھی- یوں اکثریت نے، اقلیت سے نجات حاصل جس کی بنیاد“ون-مین-ون-ووٹ”بھی ہوسکتی ہے جو ایک عاجلانہ فیصلہ تھا- ون یونٹ ٹوٹنے سے بھی ملکی وحدت و یکجہتی خود اپنے ہاتھوں ملیامیٹ ہوئی مگر شخصی سیاستیں خْوب چمکیں اور گہنائیں بھی کہ اقتدار آنی جانی چیز ہے۔
ایک ساٹھ سال پرانی اخباری رپورٹ کے مطابق جنرل اعظم کا سٹیمر جب باریسال اور چاند پور کے الوداعی دورے کے بعد روانہ ہو رہا تھا تو لوگوں کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے، کئی آزردہ لوگوں نے اپنے چہرے رومالوں سے ڈھانپ رکھے تھے، کچھ لوگ ہاتھ ہلارہے تھے- ایسے میں کبھی کبھی ”مت جاؤ اعظم! واپس آؤ اعظم“! ہمیں تم سے بڑی اْمیدیں تھیں، کی درد بھری صدائیں بھی سْنائی دے رہی تھیں - اْنہیں زندگی کی نئی اْمنگ اور جذبہ دینے والا اعظم جا رہا تھا - وہ جہاں بھی گئے لوگ دل گرفتہ نظر آئے-
جنرل اعظم کی 10 مئی 1962ء کو ڈھاکہ سے روانگی سے ایک دن پہلے اْن کے اعزاز میں ڈھاکہ سٹیڈیم میں ایک عوامی تقریب منعقد ہوئی جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور اْنہیں الوداع کہا۔
اگر ہمارے حکمران، جنرل اعظم جیسی بصیرت، قومی سوچ اور عوامی جذبہ رکھتے تو ہمارے درمیان رنجشیں اور دوریاں نہ پیدا ہوتیں اور دْنیا کا سب سے بڑا اسلامی و نظریاتی مملکت کا شیرازہ نہ بکھرتا- (ختم شْد)