صورتحال گنجلک ہے؟؟
عجیب گنجلک سی صورتحال ہے ایک طرف گیلپ سروے آ گیا ہے کہ ملک کے چاروں صوبوں کی مقبول ترین شخصیت میاں نوازشریف کی ہے تو دوسری طرف منڈی بہاؤالدین میں وزیر اعظم عمران خان کے جلسے میں عوام کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ گئے۔ بلا شبہ گیلپ سروے کو قابل اعتماد مانا جاتا ہے اور عموماً اس کے نتائج درست ثابت ہوتے رہے ہیں لیکن عمران خان کے جلسے میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی موجودگی اور ان کا جوش و خروش بتا رہا تھا کہ یہ جلسہ ماضی کے حکمرانوں کے پٹواریوں اور تھانیداروں کے جلسوں جیسا نہیں تھا۔ اس سے لگتا ہے کہ ابھی کپتان میں دم خم ہے۔ ایک طرف ملک میں مہنگائی کا طوفان ہر شخص محسوس کر رہا ہے تو دوسری طرف وزیر خزانہ شوکت ترین نے ایک بین الاقوامی سروے کے حوالے سے بتا دیا ہے کہ دنیا کے 139 ملکوں میں پاکستان سستا ترین ملک ہے۔ ریٹنگ کمپنی نمبو کا کہنا ہے کہ پاکستان دنیا کے 139 ممالک سے کم مہنگا ہے اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ تقابلی جائزہ لیتے ہوئے ان ممالک کی فی کس آمدنی، بیروزگاری کی شرح، صحت تعلیم اور تمدنی سہولیات کا بھی ذکر کر دیا جائے۔ مہنگائی مہنگائی کے شور کے جواب میں اور فی کس آمدنی کا رونا سن کر کہا جاتا ہے کہ اگر لوگوں کی آمدنی اتنی ہی کم ہو گئی ہے تو پھر مہنگائی اور نئی گاڑیوں کی خریداری میں کئی گنا اضافہ کیا کہتا ہے۔ یہ وہی دلیل ہے جو سابق فوجی آمر پرویز مشرف موبائل فونز کی بہتات کا حوالہ دے کر دیا کرتے تھے۔ تب بھی اس دلیل کو عوامی سطح پر پذیرائی نہیں ملی تھی اور اب بھی اس کا کوئی امکان نہیں۔ مہنگی گاڑیوں اور مہنگے موبائلز کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ناقص اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتے جا رہے ہیں یہ ساری لش پش اور چکا چوند امیر تر ہونے والے طبقے کی ہے۔ غریب تو دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے۔
اسی طرح ایک طرف انتخابی عمل سے گزر کر، عوام کے ووٹ لے کر 2018ء میں صحیح معنوں میں جمہوری حکومت کی تشکیل کا دعویٰ ہے (جو تسلیم بھی کر لیا گیا) تو دوسری طرف میڈیا پر قدغن لگانے کے لئے منتخب ایوانوں سے بالا بالا آرڈیننسوں کے ذریعے نئے قانون نافذ کرنے کا عمل جاری و ساری ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بعض اوقات ذرائع ابلاغ کی طرف سے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ ہو جاتا ہے۔ خبر کی تصدیق کا وہ معیار نہیں اپنایا جاتا جو آئیڈیل ہو۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں جتنی بھی جمہوریت پائی جاتی ہے اس کی بقا میں اسی آزاد میڈیا کا اہم کردار رہا ہے۔ اگر نئی قانون سازی غیر جمہوری طریقے سے کی جاتی رہی تو خوف کی ایسی فضا پیدا ہو گی کہ درست اور مصدقہ خبر دیتے ہوئے بھی سو بار سوچنا ہوگا۔ نئے صدارتی آرڈیننس کے تحت جو قانون نافذ کیا گیا ہے اس کے مطابق جعلی خبر کا الزام لگا کر، بغیر وارنٹ کے کسی بھی صحافی کو گرفتار کیا جا سکے گا۔ یہ جرم (غلط خبر دینا) ناقابل ضمانت ہوگا، اس کی سزا پانچ سال قید ہو گی۔ اس کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن کے اختیارات کو بھی محدود کرنے کا آرڈیننس آ گیا ہے۔ حالیہ دنوں میں سرکاری سینٹر فیصل واؤڈا کی نا اہلی اور کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات کے موقع پر وزراء کی سرگرمیوں پر سزائیں دینے کی وجہ سے غالباً اس کی ضرورت پڑی۔ اب وزراء اور ارکان اسمبلی کو اتخابی مہم میں تقاریر کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ آرڈیننس آنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔
لیکن اسے کبھی بھی مستحسن جمہوری اقدام نہیں سمجھا جاتا۔ قانون سازی کے لئے منتخب ایوان وجود میں لائے جاتے ہیں اور وہیں قانون سازی ہونی چاہئے صدارتی آرڈیننس کی صورت تو اس لئے نکالی گئی کہ اگر اسمبلی کا اجلاس نہ ہو رہا ہو اور قانون کی ضرورت اشد اور فوری ہو تو صدر مملکت آرڈیننس کے ذریعے قانون نافذ کر دیں۔ اس قانون کی منظوری بھی بعد میں منتخب ایوان سے لینا ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں صورت عجیب و غریب ہے۔ اسمبلی کا اجلاس چل رہا ہوتا ہے تو وزارت قانون کے دفتر میں مطلوبہ قانون کا مسودہ تیار کر لیا جاتا ہے۔ اسے اسمبلی کے جاری اجلاس میں، مخالفت کے خوف سے پیش نہیں کیا جاتا۔ اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کرایا جاتا ہے اور اگلے ہی دن پہلے سے تیار شدہ مسودہ ایوان صدر بھجوا دیا جاتا ہے جہاں دستخط کرنے کے لئے صدر مملکت پہلے سے ہمہ وقت تیار بیٹھے ہوتے ہیں یہ شارٹ کٹ ہر بار اختیار کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اسمبلیوں کے ایوانوں میں یہ بندوبست موجود ہے کہ جب بھی رائے شماری کرائی جاتی ہے بظاہر اکثریت، آن کی آن میں اقلیت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس کے باوجود صدر صاحب کو آرڈیننس فیکٹری بنانے کا مشغلہ اختیار کیا جاتا ہے۔ میڈیا کے حوالے سے نئے آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ جعلی خبریں اور کسی بھی فرد کے تشخص پر حملہ ناقابل ضمانت جرم ہوگا۔ ٹرائل کورٹ 6 ماہ کے اندر کیس کا فیصلہ سنائے گی، ہر ماہ کیس کی تفصیلات ہائیکورٹ کو جمع کرائے گی۔ اس قانون میں دلچسپ بلکہ ظالمانہمذاق یہ کیا گیا ہے کہ اسے قابل دست اندازی پولیس، بغیر وارنٹ گرفتاری کا اختیار، ناقابل ضمانت جرم جیسی شقوں سے مسلح کیا گیا ہے۔ پولیس کی نگاہ میں مجرم ٹھہرے شخص کو کسی عدالتی اجازت کے بغیر گرفتار کر لیا جائے گا۔ پھر اس کی ضمانت نہیں ہو گی اور عدالت 6 ماہ میں فیصلہ کرے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ قابل اعتراض خبر دینے اور چھاپنے والا صحافی 6 ماہ کے لئے اندر۔
چلیں جعلی خبر تو جرم ہوئی مگر کسی بھی فرد کے تشخص پر حملہ والا جرم تو گویا اصحاب اقتدار اور ان کے اہلخانہ کو تقدیس مآب بنانے کا اہتمام ہے۔ اب کوئی خبر نگار یا کالم نویس یا مضمون نگار کسی کے خانگی معاملے کو، خواہ وہ کتنا بھی حقیقی یا سچا ہو، موضوع سخن نہیں بنا سکتا اس کے ڈانڈے محسن بیگ کے معاملے سے ملائے جا رہے ہیں حالانکہ اس کام کے لئے نئے قانون لانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اس قانون سے پہلے ہی محسن بیگ کا جو علاج جس طرح کیا گیا اسی طرح باقیوں سے بھی حسن سلوک کیا جا سکتا تھا۔ مگر عدالتی فرمودات نے غالباً حکومت کو نئی قانون سازی کے ذریعے اپنے اقدامات کو جائز قرار دینے پر مجبور کر دیا۔ یہ سب کرنے کے بعد جو پھلجھڑی چھوڑی گئی ہے وہ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کی تخلیق ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت ذرائع ابلاغ (میڈیا) پر کوئی قدغن نہیں لگا رہی آیئے قارئین فاضل وفاقی وزراء کے اس فرمان پر بھی اسی طرح شرح صدر کے ساتھ یقین کر لیں کہ جس طرح ہم نے وزیر اعظم عمران خان کے ایک چینل کو دیئے انٹرویو پر کر لیا تھا کہ فوج کا ہاتھ میرے سر پر نہیں بلکہ فوج میرے ماتحت ہے۔ اب اگر کسی خبر، انٹرویو وغیرہ پر کسی صحافی کی چھترول ہو یا اس کے ”کھنے“ سینک دیئے جائیں یا پسلیاں اندر کر دی جائیں تو اس میں قصور قانونی طور پر بھی متذکرہ صحافی کا ہوگا۔ ہمیں تو یہ بھی یقین آگیا ہے کہ جس طرح ملکی معیشت کا حال روشن ہے اسی طرح ملکی صحافت کا مستقبل بھی تابناک ہوگا۔ بدخواہوں کی باتوں پر غور کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔