صدر مملکت نے غیر معمولی اقدام کر کے دھماکہ کر دیا،نئی آئینی بحث شروع،حکومت نے آئین کی خلاف ورزی قرار دیا!
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے خیبرپختونخوا اور پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ مقرر کر کے نیا پنڈورا بکس کھول دیا اور ایک اور آئینی بحران پیدا ہو گیا،اتحادی حکومت کی طرف سے ان کے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیا گیا ہے اور موقف اختیار کیا کہ وہ (صدر) ایسی ہدایت یا حکم جاری نہیں کر سکتے۔صدر علوی نے نوٹیفکیشن کے ذریعے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے 90روز کے اندر انتخابات ہونا چاہئیں لیکن اس کے ذمہ دار یہ فرض پورا کرنے پر نہیں آ رہے اور لیت و لعل کیا جا رہا ہے۔میں نے چونکہ آئین کے تحفظ کا حلف اٹھا رکھا ہے اس لئے میں نے اپنا آئینی فرض پورا کرنا ہے،دونوں اسمبلیوں کے انتخابات 9اپریل کو ہونا ہیں،اس لئے الیکشن کمیشن اپنی ڈیوٹی پوری کرے اور انتخابات کے شیڈول کا اعلان کرے۔حکومتی وزراء اعظم نذیر تارڑ،خواجہ آصف اور رانا ثناء اللہ نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صدر کو ایسا کرنے کا اختیار حاصل نہیں،وہ قومی اسمبلی کی تحلیل کی صورت میں قومی اسمبلی کے لئے انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیں۔ صوبائی اسمبلیوں کا یہ اختیار گورنر حضرات کے پاس ہے۔یہ بھی تاثر دیا گیا ہے کہ صدر کے خلاف مواخذہ کی تحریک بھی پیش کی جا سکتی ہے۔
صدر مملکت کی طرف سے یہ اقدام غیر معمولی ہے،تحریک انصاف والے خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔سابق وزیر داخلہ شیخ رشید نے اسے درست اور آئینی قرار دیا اور کہا کہ آخر کار صدر نے کر ہی دیا اس صورت حال کی روشنی میں غیر یقینی کے بادل اور بھی پھیل گئے۔ایک بڑے طبقے کے مطابق صدر ازخود یہ سب نہیں کر سکتے،انہوں نے عمران خان کی طرف سے لکھے گئے خط پر عمل کیا اور انتظار بھی نہیں کیا۔اس سلسلے میں لاہور ہائی کورٹ میں بھی تنازعہ زیر سماعت ہے اور یوں بھی 90 روز پورا ہونے میں کافی وقت ہے۔الیکشن کمیشن کی طرف سے اس معاملہ پر کسی رائے کا اظہار نہیں کیا گیا اور اجلاس بُلا کر اس میں غور کا پروگرام بنایا گیا ہے۔رانا ثناء اللہ نے تو واضح موقف اختیار کیا کہ صدر وزیراعظم کی ایڈوائس کے پابند ہیں وہ تو اسمبلیاں تحلیل نہیں کر سکتے۔ چہ جائیکہ ہ انتخابات کے انعقاد کی تاریخ دیں،صدر کو وزیراعظم کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی کی تحلیل اور انتخابات کی تاریخ دینے کا حق ہے وہ ازخود یہ سب نہیں کر سکتے۔اس سلسلے میں غیر جانبدار مبصرین کی رائے ہے کہ اب یہ تنازعہ سپریم کورٹ ہی میں جا کر حل ہو گا جہاں تک سیاسی طبقات کا خیال ہے تو ان کے مطابق 8ویں ترمیم کے تحت صدر کے پاس ایسے کوئی اختیارات نہیں ہیں کہ وہ ازخود تاریخ متعین کر سکیں۔
تحریک انصاف کے حضرات سمجھتے ہیں کہ انتخابات نہ کرانا آرٹیکل چھ کو دعوت دے گا جبکہ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ سپریم کورٹ ہی کرے گی کہ اسمبلیوں کی تحلیل کی صورت میں 90روزہ مدت متعین ہے اور اس کا مطلب یہی ہے کہ اس پر عمل ہو،تاہم اگر عمل نہ ہو تو کیا ہو گا،اس پر آئین خاموش ہے،آئین ساز حضرات کا خیال ہو گا کہ واضح مدت کے تعین کے باعث اس کی خلاف ورزی نہیں ہو گی لیکن یہاں نئی صورت حال پیدا ہو گئی اب یہ مسئلہ بھی سپریم کورٹ ہی حل کرے گی، دانشور حضرات نے رائے دی ہے کہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جائے اور اس سلسلے میں بھی سپریم کورٹ کی رائے لی جائے تاہم یہ امر بھی ملحوظ خاطر رہے کہ ماضی میں تاریخ کے تعین والے انتخابات ملتوی ہوتے رہے ہیں،ایک مثال محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی بھی ہے۔جب شیڈول کے ہوتے ہوئے انتخابات ملتوی ہوئے،آج جو ملکی صورت حال ہے اس میں معاشی بدحالی سے لے کر شدید نوعیت کی محاذ آرائی بھی جاری ہے،حکومتی حلقوں کے مطابق وہ انتخابات کے لئے تیار ہیں لیکن ان کے لئے فضا سازگار ہونا ضروری ہے۔حکومتی حلقے قومی اور صوبائی انتخابات ایک ساتھ کرانے کی بات کرتے ہیں اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ کم از کم اکتوبر تک صوبائی انتخابات ملتوی کئے جانے کا خیال ہے۔تحریک انصاف کی طرف سے عام انتخابات پر زور دینے کے لیے تحریک کا فیصلہ بھی کر لیا گیا ہے جبکہ دوسری طرف یہ حالات ہیں کہ قومی اسمبلی کی 33 نشستوں پر ضمنی انتخابات کا شیڈول جاری ہو گیا،پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم حصہ لے رہی تھیں جبکہ اتحاد نے یہ فیصلہ کر لیا کہ ان ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لیا جائے کہ یہ فضول مشق ہو گی، ایک تو تحریک انصاف قومی اسمبلی کے لئے سنجیدہ نہیں،دوسرے مدت اکتوبر تک ہو گی۔
قومی اسمبلی میں حتمی مالیاتی بجٹ2023ء کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا، موثر حزبِ اختلاف نہ ہونے کی وجہ سے ایوان میں کوئی زیادہ کوشش نہ ہوئی کہ بجٹ کی منظوری میں رکاوٹ ہوتی۔اس بجٹ کے تحت170 ارب روپے کے نئے ٹیکس لاگو کیے گئے جبکہ پٹرولیم مصنوعات اور گیس کے نرخ پہلے ہی بڑھا دیئے گئے ہیں۔یہ بجٹ صدر کے دستخطوں کے بعد لاگو ہو گا لیکن منافع خوروں نے مارکیٹ میں مہنگائی کا طوفان برپا کر دیا ہے اور اب روزانہ کے حساب سے مہنگائی بڑھ رہی ہے اس کی وجہ سے سفید پوش طبقہ پس کر رہ گیا ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اسلام آباد کی سیشن عدالت میں بھی پیش ہوئے اور ان کی طرف سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دی گئی جو منظور کر لی گئی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ عدالت نے آئندہ تاریخ28 فروری دی ہے،عمران خان کے مطابق اس روز اُن کے ایکسرے ہونا ہیں اور یہ ایکسرے شوکت خانم ہسپتال لاہور میں ہوں گے اور اس کے لئے28 فروری متعین کی گئی ہے، اس روز یہ عذر ہو گا کہ ایکسرے کے بعد ہی نتیجہ نکلنا ہے لاہور کی عدالت عالیہ نے حفاظتی ضمانت منظور کی تو اگلی تاریخ تین مارچ کی دی گئی کہ عمران28 کا مرحلہ پورا کر لیں۔
٭٭٭
صدارتی حکم کے بعد آئینی ماہرین کی رائے منقسم،ایک کے مطابق غیر آئینی دوسرے کے مطابق درست!
منی بجٹ منظور،اِس سے پہلے ہی مہنگائی کا سونامی آ چکا،مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے
