پولیس ہیڈکوارٹر پر دہشت گردی نے سکیورٹی کے حوالے سے کئی سوال اٹھا دیئے ہیں
کراچی پویس چیف کے آفس واقع شاہراہ فیصل پر دہشت گردوں کے حملے نے سیکورٹی کی صورتحال کے بارے خدشات پیدا کردیے ہیں اس حوالے سے یہ بات کہنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے کہ یہ انٹیلی جنس اور سیکورٹی کے انتظامات پر سوالیہ نشان ہے کیونکہ دہشت گرد جس علاقے میں کارروائی میں کامیاب ہوئے وہ بہت اہم اور حساس علاقہ ہے۔
سیکورٹی کے اہم ترین دفاتر اس کے قریب ترین موجود ہیں۔ سیکورٹی اداروں نے ان دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا کھوج تو لگالیا ہے لیکن حکومت کو افغان حکومت کے ساتھ گفتگو کرنی چاہیے۔ یہ بات بھی باعث دلچسپی اور حیران کن ہے کہ دہشت گردوں نے کراچی جیسے شہر میں حملہ کرنے کا وہ وقت منتخب کیا جب جرمنی کے شہر میونخ میں سیکورٹی پر ایک عالمی کانفرنس منعقد ہونے جارہی تھی اور پاکستان کے وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے اس موقع پر عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ دہشت گردی کی روک تھام کیلئے ہماری مدد کرے۔ دہشت گردوں کے حملے کے بعد زخمیوں کی عیادت کیلئے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے جناح ہسپتال کا دورہ کیا اور زخمیوں کی ہمت بندھائی۔
اس حملے کی تحقیقات شفاف انداز میں ہونی چاہیے، تاکہ سیکورٹی انتظامات میں جو خلاء ہے، اسے آئندہ کیلئے دور کیا جائے۔ انتظامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ کچھ سہولت کار بھی گرفتار ہوئے ہیں اور مزید گرفتاریوں کی بھی اطلاعات ہیں۔
سندھ اسمبلی نے حال ہی میں گیس کی لوڈ شیڈنگ پر ایم ڈی سوئی سدرن گیس کمپنی کو طلب کیا تھا اور ان سے اس بحران کے متعلق سوالات کیے ہیں۔ ایم ڈی نے وضاحت دی ہے کہ گیس کی کمی ہے اور ڈسٹری بیوشن وفاق کرتا ہے، اسی کے وضع کیے گئے فارمولے کے مطابق گیس کی سپلائی کی جاتی ہے۔
جماعت اسلامی نے بلدیاتی الیکشن کو مکمل کرنے کا مطالبہ کیا ہے، اس سلسلے میں انہو ں نے احتجاج بھی کیا اور الیکشن کمیشن میں درخواست بھی دائر کررکھی ہے۔ جماعت اسلامی کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جن یوسی کے الیکشن نتائج پر انہوں نے اعتراضات داخل کیے ہیں، ان میں سے کم از کم چھ یوسی میں ان کے امیدوار جیت سکتے ہیں۔ اور اگر گیارہ یوسی میں الیکشن منعقد ہوتے ہیں تو کم از کم آٹھ سے نو ہمارے امیدوار الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں ہیں۔ اس طرح قوی امکان ہے کہ ہم ہی اکثریتی پارٹی ہونگے اس لیے ہم پیپلز پارٹی کی میئر کراچی کیلئے حمایت نہیں کرسکتے۔
پیپلز پارٹی نے بہت کوشش کی ہے کہ میئر کراچی کی نشست کیلئے جماعت اسلامی آمادہ ہوجائے، لیکن مذاکرات کے بعد بھی انہیں یہ حمایت نہیں مل سکی، اب الیکشن میں تاخیر کی وجہ الیکشن کمیشن ہی بتایا جارہا ہے۔ حکومت سندھ اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو اس سلسلے میں کردار ادا کرنا چاہیے۔عوامی سطح پر اس تاخیر سے پیپلز پارٹی پر ہی تنقید ہورہی ہے۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے نیب کے ایک مقدمے کے سلسلے میں کراچی آمد پر، نیب قوانین پر سخت تنقید کی ہے۔ وہ اکثر اپنے مقدمے کی سماعت کے موقع پر نیب قوانین کو ہدف تنقید بناتے ہیں حالانکہ اب تک کی ترامیم کے نتیجے میں ان کی پارٹی کے کئی رہنما اپنے مقدمات ختم کرواچکے ہیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر موجودہ سیاسی نظام کو بھی پاکستان کو مسائل سے نکلنے کیلئے ناکافی قرار دیا، ان کے مطابق موجودہ سیاسی نظام، ناکام ہوچکا ہے۔
اس وقت مسلم لیگ ن کے کئی رہنما اپنی پارٹی کے حکومت میں ہونے کو انجوائے کررہے ہیں اور ساتھ ساتھ تنقید بھی کررہے ہیں۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ یہ بھی ایک سیاسی حکمت عملی ہے، جس کے ساتھ وہ اپنا ووٹ بینک بچانے کی بھی کوشش کررہے ہیں۔ مریم نواز شریف نے بھی کچھ روز قبل کہا تھا کہ یہ میری حکومت نہیں۔ اس طرح کے بیانات سے ووٹ بینک بچانا مشکل ہے۔ ان کو چاہیے کہ وزیراعظم شہباز شریف سے حقیقی ریلیف کیلئے اعلان کروائیں۔ یہ حکمت عملی کارگر نہیں۔
تحریک انصاف کی جیل بھرو تحریک کا آغاز ہورہا ہے۔ صوبہ سندھ سے تحریک انصاف کے رہنما دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کے پاس بھی رضاکارانہ گرفتاریاں دینے کیلئے کارکنوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت جیل بھرو تحریک میں پنجاب پر انحصار کررہی ہے۔ صوبہ سندھ میں اس کی کامیابی ابھی مشکل دکھائی دیتی ہے۔ سندھ کے صدر سید علی زیدی دعویٰ کررہے ہیں کہ کارکنوں کا جوش و خروش عروج پر ہے اور انہیں بہت زیادہ رسپانس کی امید ہے۔
ایم کیو ایم نے ان خبروں کی تائید کی ہے کہ پیپلز پارٹی نے حلقہ بندیوں کے حوالے سے ان کے موقف کو تسلیم کرلیا ہے۔ مصطفی کمال کا کہنا ہے کہ شہری سندھ میں حلقہ بندیوں کے معاملات پر دھرنے کی کال ابھی موجود ہے۔ صوبائی وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ نے بھی ایم کیو ایم بہادر آباد کا دورہ کیا ہے اور ایم کیو ایم کی قیادت کو قانونی کارروائی جلد از جلد مکمل کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے گورنر ہاؤس سندھ میں بینکوں کے نمائندوں کے ساتھ ایک اہم اجلاس منعقد کیا ہے اور خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کے لیے روزگار کے ذرائع بڑھانے کیلئے اقدامات پر زور دیا۔ پاکستان میں بہت سی خواتین ورک فورس کا حصہ بن سکتی ہیں اور ملکی معیشت میں بہتری لانے کا باعث بن سکتی ہیں۔ڈاکٹر علوی نے انشورنس کے شعبے کو بھی فعال بنانے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس شعبے میں شفاعیت لانا از حد ضروری ہے۔
حکومت کے منی بجٹ نے عوام کی زندگیاں اجیرن کردی ہیں۔ اشیائے ضروریہ اور خوردونوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوچکا ہے۔ اگر پیٹرول کی قیمتیں مزید بڑھا دی گئیں تو عوام کیلئے مزید مشکلات بڑھ جائیں گی۔ اس وقت انڈسٹری بھی شدید دباؤ کا شکار ہے۔ شہر کراچی میں عوام کے مسائل پہلے ہی بہت زیادہ تھے، اب مہنگائی کے طوفان نے انہیں دیوار سے لگادیا ہے۔
٭٭٭
ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی میں حلقہ بندیوں پر سمجھوتہ ہو گیا، ایم کیو ایم مطمئن!
جماعت اسلامی نے بلدیاتی انتخاب پورا کرنے کا
مطالبہ کر دیا اور جیت کا دعویٰ بھی!
