میں بے ہوش تھی کچھ پتہ نہیں چلا کہ آپریشن تک اندر میرے ساتھ اور باہر کیا ہوتا رہا

میں بے ہوش تھی کچھ پتہ نہیں چلا کہ آپریشن تک اندر میرے ساتھ اور باہر کیا ہوتا ...
 میں بے ہوش تھی کچھ پتہ نہیں چلا کہ آپریشن تک اندر میرے ساتھ اور باہر کیا ہوتا رہا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف: پروفیسر شمع سکندر خان 
قسط:10
چوچو مزید کہتی ہیں” میں بنا ءجواب دئیے سامنے کو بھاگی جہاں ایک ڈاکٹر صاحبہ نظر آئیں۔ اُنہیں صورتحال کی سنگینی بتائی اور پوچھا کہ پرائیویٹ رومز تک کیسے پہنچو ں اللہ اُن کا بھلا کرے انہوں نے ایک شخص کو آواز دی کہ یہ تالا کھولو۔ میں بھا گتی ہوئی کمرے سے فائل لے کر واپس پہنچی تو سکندر بھائی چابی کے منتظر بیٹھے تھے اُن کے ہا تھ میں چابی تھمائی اور اندر جا کر فائل ڈاکٹر صاحب کو پہنچائی۔“ میں بے ہوش تھی کچھ پتہ نہیں چلا کہ آپریشن تک اندر میرے ساتھ اور باہر چوچو کے ساتھ کیا ہوتا رہا۔یہ تمام پریشانیاں میرے ٹھیک ہونے کے بعد چوچو مجھے ہنس ہنس کے سناتی رہی۔
آپریشن کے بعد tumorکو لیب میں بھجوادیا گیا تاکہ رپورٹ کی روشنی میں علاج کی سمت کا تعین کیا جاسکے۔ عمارہ اور چو چو نے بتایا کہ ایک پیلے اور کالے رنگ کا مواد جو شیشے کی بو تل میں تھا اور اُسے شفاءہسپتال لیبارٹری میں بھجوادیا گیا۔دوپہر کے تقریباً 11/2 بجے مجھے اپنے کمرے میں شفٹ کر دیا گیا۔ شام کے وقت مجھے ہو ش آرہا تھا تو کمرے میں ملی جلی بہت سی آوازیں آرہی تھیں۔ میں نے نیم بے ہو شی میں پو چھا سعد آ گیا ہے تو عمارہ نے جواب دیا جی امی بھائی گلگت سے پہنچ چکے ہیں۔ سعد نے بستر پر مجھے گلے لگایا اور میرا پیار لیا۔میرے کالج کی ڈاکٹر بشریٰ اور بہت سے دوست احباب موجود تھے۔ میں سب کو پہچان تو نہیں رہی تھی لیکن لو گو ں کی موجودگی کا احساس تھا۔ ڈاکٹر بشریٰ کہہ رہی تھی میڈم آنکھیں کھولیں۔
اب سب کو رپورٹ کا بے چینی سے ا نتظار تھا۔2روز بعد نتیجہ ملا تو بہت سی تکنیکی اصطلاحات ہم سب کی سمجھ سے بالا تر تھیں۔ رپورٹ فوراً امریکہ میں شاہدہ باجی کو بھجوا دی گئیں جنھوں نے دیگر طبی ماہرین سے مشورہ لیا۔ شفاءانٹرنیشنل میں اپنے Oncologist کو دکھائیں اور سعد اس کی کاپی شوکت خانم ہسپتال لاہور لے گئے اور وہاں کے ڈاکٹروں کی رائے لی۔طریقہ علاج اور ادویات کے بارے میں سب کی رائے ایک تھی جس سے اطمینان ہوا کہ ہم درست سمت میں علاج کروارہے ہیں۔ سب کی متفقہ رائے تھی کہ کیموتھراپی کے 6 سیشن ہو نگے جو کہ سرجری کے ایک ماہ کے بعد شروع ہونگے اور ہر ایک میں 3 ہفتے کا وقفہ ہو گا اور کیموتھراپی ختم ہونے کے ایک ماہ بعد ریڈی ایشن ہو گی۔
شوکت خانم والوں نے رائے تو دی لیکن میرے علاج سے معذرت کر لی کہ ہم لوگ صرف انہی مریضوں کی کیموتھراپی کرتے ہیں جن کی سرجری ہمارے ہاں ہوئی ہو۔ اس لیے اسلام آباد کے ایک پرائیویٹ ہسپتال سے رجوع کیا۔ بعد کے واقعات سے اندازہ ہوا کہ پرائیویٹ علاج جیب پہ کتنا بھاری ہوتا ہے۔یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ سعد کی سرکاری نوکری کی وجہ سے آپریشن تو کم از کم سرکاری ہسپتال میں ہو چکا تھا ورنہ تو اس کے بھی لاکھوں روپے بھرنا پڑتے۔ ( جاری ہے ) 
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )

مزید :

ادب وثقافت -