قاضی حسین احمد کی ہمہ جہت شخصیت اور زندگی کے چند دل نواز اور تابناک پہلو(2)

قاضی حسین احمد کی ہمہ جہت شخصیت اور زندگی کے چند دل نواز اور تابناک پہلو(2)
قاضی حسین احمد کی ہمہ جہت شخصیت اور زندگی کے چند دل نواز اور تابناک پہلو(2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ثانیاً: دینی جماعتوں اور علمائے کرام سے ربط و تعلق بڑھانے کی خصوصی کو ششیں:
امیر جماعت منتخب ہونے کے بعد قاضی حسین احمد نے جس دوسرے پہلو کی طرف خصو صی توجہ کی، وہ ملک کی دینی جماعتوں اور علمائے کرام کے ساتھ خصوصی ربط و تعلق بڑھانے کی پالیسی تھی۔ اس سلسلے میں انہوں نے سب سے پہلے رائیونڈ میں تبلیغی جماعت کے سالانہ اجتماع میں شرکت کو اپنے معمول کا حصہ بنا یا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام کے ساتھ خصوصی ملاقاتوں اور ربط و تعلق بڑھانے کا اہتمام کیا۔ اس سلسلے میں خصوصیت کے ساتھ بریلوی مکتب فکر کے قائد علامہ شاہ احمد نورانی مرحوم، دیوبندی مکتب فکر کے قائدین مولانا عبدالرحمن اشرفی ، مولانا فضل الرحمن، مولانا حافظ حسین احمد، مولانا جسٹس تقی عثمانی اور مولانا رفیع احمد عثمانی،جمعیت اہل حدیث کے پروفیسر علامہ ساجد میر اور شیعہ مکتب فکر کے علامہ ساجد نقوی بطور خاص قابل ذکر ہیں، چنانچہ ان کی انہی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ایک طرف مختلف مکاتب فکر کے علماءاور جماعت اسلامی کے درمیان قربتیں بڑھیں اور دوسری طرف ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل کے قیام کی راہیں بھی ہموار ہوئیں ۔

مختلف دینی جماعتوں کے ساتھ ربط وتعلق بڑھانے کے لئے قاضی حسین احمد نے اس بات کا بھی اہتمام کیا کہ مختلف مکاتب فکر، خصوصاً دیوبندی مکتب فکر کے ایسے تعلیمی اداروں کے دورے بھی کئے جو جماعت کے ساتھ اپنی مخالفت کی وجہ سے معروف تھے، مثلاً جامعہ الرشید کراچی وغیرہ۔ ان دوروں کے دوران ان اداروں کے اساتذہ اور طلبہ کی طرف سے جماعت اسلامی کے بانی سید مودودی ؒ اور جماعت اسلامی کی پالیسیوں کے حوالے سے تند و تیز سوالات اور تبصروں کا خندہ پیشانی سے استقبال کیا کرتے اور ان کا دلائل سے جواب دیتے ۔ قاضی حسین احمد کے ان اداروں کے دوروں کے نتیجے میں باہمی مفاہمت، تحمل و بردباری اور یگانگت کی فضاءکو خصوصی طور پر فروغ حاصل ہوا۔
ثالثاً:جہاد افغانستان اور جہاد کشمیر کی تائید و حمایت کے ذریعے عوام کو ملکی سالمیت کو درپیش خطرات کا احساس دلانا:
جہاد افغانستان اور جہاد کشمیر کے حوالے سے قاضی حسین احمد کے تاریخی کردار کے حوالے سے ہم ان عنوانات کے تحت خصوصی تذکرہ بھی کر رہے ہیں، لیکن یہاں صرف اس بات کا ذکر کرنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کے عام لوگوں میں جہاد افغانستان کے حوالے سے روسی جارحیت اور جہاد کشمیر کے حوالے سے بھارتی جارحیت کا احساس اجاگر کرنے کا خصوصی اہتمام کیا، جو ان کی دعوت کے ایک عام آدمی تک پہنچنے کا ایک مو¿ثر ذریعہ ثابت ہوا۔
رابعاً:دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ روابط بڑھانے کا خصوصی اہتمام کرنا:

  قاضی حسین احمد نے دینی جماعتوں کے ساتھ ساتھ دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ ربط و تعلق بڑھانے کا بھی خصوصی اہتمام کیا۔ اس سلسلے میں اگرچہ جماعت اسلامی پاکستان اس سے قبل قومی اتحاد کے دنوں میں سابق نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان پروفیسر عبدالغفور ؒ کی قیادت میں ایک مو¿ثر رول ادا کر چکی تھی، لیکن قاضی حسین احمد نے اسے بحیثیت امیر جماعت اسلامی اپنے سیاسی ایجنڈے کا خصوصی حصہ بنایا، چنانچہ یہ قاضی حسین احمد کی انہی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ اسلامی جمہوری اتحاد معرض وجود میں آیا، جس کی پہلے پنجاب ، پھر مرکز میں حکومت بنی ۔جماعت اسلامی پاکستان بلاشبہ اسلامی جمہوری اتحاد کا انتہائی مو¿ثر حصہ تھی۔
جہاد افغانستان کے سرپرست اور پشتیبان کی حیثیت سے قاضی حسین احمد کا کردار :
1979ءمیں سابق سوویت یونین کی طرف سے برادر اسلامی ملک افغانستان پر حملہ کیا گیا تو افغان عوام نے ملک پر روسی جارحیت کے پہلے دن سے افغانستان کی آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کے لئے علم جہاد بلند کر دیا۔اس جہاد میں افغانستان کی تحریک اسلامی پیش پیش تھی، چنانچہ جہاد افغانستان کے سارے قائدین گل بدین حکمت یار (حزب اسلامی)، برہان الدین ربانی (جمعیت اسلامی )، عبدالرب رسول سیاف (اتحاد اسلامی) اور مولانا یونس خالص(حزب اسلامی)کا تعلق تحریک اسلامی سے تھا۔ یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اس جہاد کو پہلے روز سے ہی قاضی حسین احمد کی ، جو اس وقت جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل تھے ، بھرپور سرپرستی حاصل رہی ، بلکہ قاضی حسین احمد کا شمار اس جہاد کے بانیوں میں ہوتا ہے، پھر ان کی مساعی جمیلہ کے نتیجے میں بتدریج جہاد افغانستان اور جماعت اسلامی پاکستان، نیز دوسری عالمی اسلامی تحریکوں کے درمیان روابط روز بروز گہرے ہوتے چلے گئے اور عالمی اسلامی تحریکوں نے اس کی کامیابی کے لئے اپنا سب کچھ پیش کردیا،خصوصاً عالمی اسلامی تحریکوں سے وابستہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اس جہاد میں شرکت کے لئے اپنا گھر بار چھوڑ کر افغانستان آ پہنچی،جہاد افغانستان کو عملاً ایک عالمی مدرسہ جہاد کی حیثیت حاصل ہوگئی جس میں شرکت کے ذریعے مسلمان نوجوان جہاد کی عملی تربیت بھی حاصل کرنے لگے۔
جہاد افغانستان کے سلسلے میں قاضی حسین احمد رحمہ اللہ کی حکمت عملی کے اہم پہلو:
جہاد افغانستان کے حوالے سے قاضی حسین احمد کی حکمت عملی کے اہداف حسب ذیل تھے:
(1) جہاد افغانستان کو بقائے پاکستان کی جنگ قرار دیتے ہوئے اس کی کامیابی کے لئے بھر پور کردار ادا کرنا۔
(2) افغانستان کی اسلامی تحریک مزاحمت کی ہر ممکن تائید و حمایت کرنا۔
(3) پاکستان کی رائے عامہ کو جہاد افغانستان کے حوالے سے ہموار اور یکسو کرنے کے لئے تمام ممکنہ ذرائع و وسائل سے کام لینا۔
(4) عالمی اسلامی تحریکوں کو تحریک جہاد افغانستان کی تائید و حمایت کے لئے یکسو کرنا۔
(5) جہاد افغانستان کی ممکنہ مالی معاونت کے لئے فنڈز کی فراہمی کی منصوبہ بندی کرنا۔
ان اہداف کی تکمیل کے لئے قاضی حسین احمد نے جو لائحہ عمل اختیار کیا، اس کے اہم پہلو حسب ذیل ہیں:
1۔ جہاد افغانستا ن کے حوالے سے قاضی حسین احمد کی تشکیل کردہ حکمت عملی کا بنیادی اصول یہ تھا کہ افغانستان کا جہاد اپنی نوعیت اور اہمیت کے اعتبار سے پاکستان کی بقاءکی جنگ ہے، روسی جارحیت کا اصل مقصد صرف افغانستان کو فتح کرنا نہیں ، بلکہ افغانستان کی فتح کے بعد روس گرم پانیوں، یعنی بحیرہ¿ عرب تک پہنچنے کے لئے پاکستان پر حملہ کرنا ضروری سمجھتا ہے، اس لئے پاکستان کو روسی جارحیت سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ روس کو افغانستان میں شکست دی جائے۔ اس لئے جماعت اسلامی نے جہاد افغانستان میں عملی شرکت کو لازمی قرار دیا اور قائدین کے حکم پر جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہزاروں نوجوان جہاد افغانستان میں شرکت کے لئے افغانستان گئے اور وہاں مختلف مجاہد تنظیموں سے وابستہ ہو کر جہاد میں عملاً شریک رہے ۔ ان میں سے بڑی تعداد میں نوجوان شہادت سے بھی ہمکنار ہوئے ، جن میں جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی رہنما جسٹس ملک غلام علی مرحوم کے صاحبزادے انعام اللہ خان شہید اور جماعت اسلامی ضلع کوہاٹ کے امیر ڈاکٹر محمد سلیم مرحوم کے صاحبزادے فضل ربی شہید بطور خاص قابل ذکر ہیں۔  ٭





(2) جہاد افغانستان کے حوالے سے اس حکمت عملی کا دوسرا اہم پہلو یہ تھا کہ افغانستان میں اسلامی تحریک مزاحمت کو زیادہ سے زیادہ مضبوط ، ٹھوس اور منظم بنیادوں پر استوار کیا جائے۔ جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ یہ قاضی حسین احمدہی تھے، جنہوں نے افغانستان میں جہاد کی بنیاد ڈالی اور اسے منظم کیا، چنانچہ قاضی حسین احمد نے جو اس وقت جماعت اسلامی صوبہ خیبر پختونخوا کے امیر تھے، اس مقصد کے لئے افغانستان کے کئی دورے کئے ۔ ا س دور میں تحریک اسلامی کی دعوت پر لبیک کہنے والے سابقون الاولون، خصوصاً پروفیسر غلام محمد نیازی، پروفیسر برہان الدین ربانی، گلبدین حکمت یار ، عبدالرحیم نیازی شہید، اور منہاج الدین گہیز شہید کی تحریک اسلامی کو ٹھوس بنیادوں پر منظم کرنے کے سلسلے میں رہنمائی کی، پھر جب افغانستان کی تحریک اسلامی نے روسی جارحیت کے خلاف ایک منظم تحریک مزاحمت کی شکل اختیار کی، تو اس وقت بھی جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے قاضی حسین احمد نے اس کی بھر پور تائید و حمایت اور دستگیری کی، پھر جب اس کے قائدین پروفیسر برہان الدین ربانی اور گلبدین حکمت یار کے لئے افغانستان میں رہنا ناممکن ہو گیا تو انہیں ہجرت کر کے پشاور آجانے کی دعوت دی ۔ ان قائدین کے پشاور آ جانے کے بعد نہ صرف یہ کہ ان کے قیام و طعام کا انتظام کیا، بلکہ اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ان کے ایک مقرب جنرل نصیر اللہ بابرکے ذریعے ، جو بعد میں صوبہ خیبر پختونخوا کے گورنر بھی رہے ہیں ، ملاقات کا اہتمام بھی کیا، جنہوں نے روسی جارحیت کے نتیجے میں پاکستان کو درپیش خطرے کے پیش نظر ان کی بھر پور تائید و حمایت کی ۔ اس کے بعد قاضی حسین احمد نے افغانستان کی تحریک مزاحمت کی ہر قدم پر بھر پور تائید و حمایت جاری رکھی۔
(3)پاکستان میں رائے عامہ کو جہادافغانستان کے حوالے سے بیدار اور منظم کرنے کااہتمام:
جہاد افغانستان کے حوالے سے اس حکمت عملی کا تیسرا اہم پہلو یہ تھا کہ اس وقت پاکستان میں جہاد افغانستان کے حوالے سے عجیب قسم کے فکری انتشار کی کیفیت تھی۔ ترقی پسند دانشور اور اخبار نویس جو برسوں سے سرخ سویرے کے راگ الاپتے ہوئے یہ پروپیگنڈہ کر رہے تھے کہ روس ناقابل شکست ہے اور روسی فوجیں جس ملک میں داخل ہوجاتی ہیں، وہاں سے کبھی واپس نہیں ہوتیں ، افغانستان میں روسی جارحیت کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے تھے، ان میں بڑی تعداد میں ایسے دانشور بھی شامل تھے جو اٹک کے پل پر روسی فوجوں کے خیر مقدم کی باتیں کرتے ہوئے بھی حیا محسوس نہیں کرتے تھے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان میں رائے عامہ شدید ذہنی انتشار اور فکری خلفشار کا شکار تھی۔ قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی کے سیکر ٹری جنرل کی حیثیت سے پاکستان کی رائے عامہ کو شدید ذہنی انتشار اور فکری خلفشار کی اس کیفیت سے نکالنے کے لئے بڑی منظم بنیادوں پر کام کیا۔ اس مقصد کے لئے پاکستان بھر میں جگہ جگہ سیمینار اور قومی کانفرنسیں منعقد کی گئیں، جن کے ذریعے معاشرے کے پڑھے لکھے اور سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد کو روسی جارحیت کے خطرے سے آگاہ کیا گیا اور انہیں یہ باور کرایا گیا کہ اگر روسی جارحیت کے خلاف یہ جنگ افغانستان میں نہ لڑی گئی تو کل اسے پاکستان میں لڑنی پڑے گا۔ اس کے علاوہ ایجنسی افغان پریس قائم کرکے اس کے ذریعے جہاد افغانستان کے بارے میں صحیح خبریں فراہم کرتے ہوئے اس جھوٹ کا پردہ چاک کیا کہ روس ناقابل شکست ہے اور ایک بار جس ملک کو فتح کرلیتا ہے، وہاں سے کبھی واپس نہیں ہوتا۔
(4) جہاد افغانستان کے حوالے سے اس حکمت عملی کا چوتھا اہم نکتہ یہ تھا کہ جہاد افغانستان کی زیادہ سے زیادہ مالی امداد کی جائے ۔ اس مقصد کے لئے جماعت اسلامی پاکستان کے زیر اہتمام جہاد افغان فنڈ کے نام سے باقاعدہ ایک فنڈ قائم کیا گیا اور فنڈز جمع کرنے کے لئے اندرون و بیرون ملک باقاعدہ مہم چلائی گئی۔ اس سلسلے میں جو فنڈز جمع ہوئے، انہیں افغان مجاہد قائدین کے ذریعے مستحق افراد تک پہنچانے کا اہتمام کیا گیا۔
(5) جہاد افغانستان کے سلسلے میں اس حکمت عملی کا پانچواں نکتہ یہ تھا کہ جہاد افغانستان کی نوعیت واہمیت اور صحیح صورت حال سے عالم اسلام، خصوصاً عالم عرب کو باخبر رکھا جائے اور اس جہاد کے حوالے سے عالمی اسلامی تحریکوں کی بھر پور تائید و حمایت او راخلاقی و مالی امداد حاصل کی جائے۔ اس مقصد کے لئے انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز کے ساتھ باقاعدہ ایک شعبہ قائم کیا گیا جو عالم اسلام، خصوصاً عالمی اسلامی تحریکوں کو جہاد افغانستان کی تازہ ترین صورت حال سے باخبر رکھنے کے لئے دن رات کام کرتا تھا۔ اس شعبے کے زیر اہتمام جہاد افغانستان کی تازہ ترین صورت حال کے بارے میں تازہ اور ماہانہ رپورٹس شائع ہوئیں۔ اس حکمت عملی کے تحت جماعت اسلامی پاکستان کے امو رخارجہ کے سربراہ مولانا خلیل حامدی مرحوم، جو عربی زبان کے بلندپایہ مقرر تھے، مسلسل اسلامی ملکوں کے دورے کرتے اور وہاں پر مختلف کانفرنسوں ، سیمینارز، انٹر ویوز اور ملاقاتوں میں جہاد افغانستان کی اہمیت اور صورت حال پر روشنی ڈالتے رہتے ، چنانچہ اس حکمت عملی کالازمی نتیجہ تھا کہ تمام عالمی اسلامی تحریکیں ایک سیسہ پلائی دیوار کی طرح جہاد افغانستان کے ساتھ کھڑی رہیں۔    (جاری ہے)

مزید :

کالم -