صرف احتجاج کافی نہیں!
ایک بار پھر توہین آمیز خاکے اور ہم ان کے خلاف سراپا احتجاج ۔ایک بار پھر ہمارے دل دکھے ہیں،ہم رنجیدہ ہیں۔اس بارفرانس کے ایک ہفت روزہ چیتھڑے نے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی دل آزاری کی ہے۔ اس سے پہلے بھی یورپ اورامریکہ میں کبھی خاکے اور کبھی ویڈیو فلم منظر عام پر آتی رہی،ہمارے دلوں کو رلاتی رہی۔ دوسال پہلے توہین آمیز ویڈیو سامنے آئی توزبردست احتجاج ہوا،حکومت نے یوٹیوب پر پابندی لگادی،یہ پاکستان میں گزشتہ دو سال سے بند ہے، لیکن باقی ساری دنیا میں دیکھی جارہی ہے۔کوئی ایک خاکہ،کوئی دیڈیو ، کوئی ایک رذیل حرکت مسلم دنیا میں ہنگامے شروع کر دیتی ہے۔امریکی اخبار یو ایس ٹوڈے نے سرخی جمائی : چارلی ہیبڈو مسلم دنیا کو مسلسل احتجاج میں دہکا رہا ہے۔ تو کیا ہمیں احتجاج نہیں کرنا چاہئے ؟ اللہ نہ کرے ایمان کا ایسا کمزور درجہ ہو۔بلاشبہ احتجاج زندگی کا ثبوت ہے،یہ اعلان ہے کہ ہمیں یہ ہستی ؐجان سے بڑ ھ کرپیاری ہے،یہ اعلان ہے کہ ہم آقا ؐکی ناموس کے لئے ہر حد تک جانے، بلکہ ہر حد سے گزرنے کو تیار ہیں۔
توہین آمیز مواد شائع کرنے کے کیا مقاصد ہوسکتے ہیں ؟کیا یہ کسی ایک فرد کا ذہنی خنّاس ہوتا ہے یاکسی گروہ یا ادارے کی سوچی سمجھی سازش؟اگر ایک فرد کا خناس ہے تو کیا کوئی ایک فرد ڈیڑھ ارب کو ہلا کر رکھ سکتا ہے اور اگر یہ گہری سازش ہے تواس کے مقاصد،حکمت عملی اور ممکنہ نتائج پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔رحمت دوجہاں ؐ کی توہین کا مقصد مسلمانوں کی دل آزاری‘انہیں جذباتی طور پر ہلکان کرنا‘ مشتعل کرنا اور طیش دلاناہوسکتا ہے۔انہیں سخت اور پر تشددردعمل پر اکسانابھی ہوسکتا ہے۔ اگر سازش مسلمان معاشروں میں انتشاراور خلفشار پھیلانا ہو تو اس کام میں معاونت کون کرتا ہے ؟جو گستاخانہ ویڈیو چند ہزار لوگوں نے دیکھی اسے لاکھوں افراد تک کس نے پہنچایا،جو چیتھڑا رسالہ چند ہزار چھپتا تھا ‘اس نے دوبارہ گستاخی کی اور اسے 30 لاکھ کی تعداد میں شائع کیا ۔ کیا ان کو پھیلانے اور شیئر کرنے والے توہین کے مرتکب نہیں ہوتے ؟
توہین کر نے والے افراد کی حکومتیں ان کا دفاع کرتی ہیں،ان کا تحفظ کرتی ہیں ۔اس بار بار کی توہین کو کیسے روکا جائے ؟اس پر کیسا ردعمل ہونا چاہئے،ان کو کیسا جواب دینا چاہئے ۔ان سے لڑیں،سفارتی تعلقات منقطع کر لیں‘ ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیں یا مظاہرے اور احتجاج کرتے رہیں؟
ڈیڑھ ارب مسلمان اتنے کمزور ہیں کہ وہ اقوام متحدہ سے انبیاء علیہم السلام اور الہامی کتابوں کی حرمت کا عالمی قانون نہیں بنواسکتے،ان کی حکومتیں اتنی بے حمیت اور دبوہیں کہ جاندار پیغام نہیں دے سکتیں۔کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ مسلم دنیا کو کمزور سمجھ کر ان کے شعائر کامذاق اڑایا جاتا ہے،توہین کی وجہ خود ہم ہی تو نہیں؟ایک انگریزی جریدے نے لکھا : جب پیرس میں حملہ ہوا تو اتفاق سے اسی وقت پیرس کے اوپر خلا میں سپیس سٹیشن گزر رہا تھا جو ان پچیس ممالک کا مشترکہ پراجیکٹ تھا جو کبھی ’گاڈ اور گولڈ‘ کے لئے آپس میں لڑ رہے تھے ۔سپیس سٹیشن بنانے والے ان پچیس ممالک میں ایک بھی مسلمان ملک نہیں ہے ۔اس نے مزید لکھا: آج مغرب کے پاس، جو سائنسی ترقی موجود ہے وہ مسلمانوں کی سائنسی تحقیق سے ہی آگے بڑھی،مگر آج کے مسلمان نے علم کو چھوڑ کر اسلحہ کو اپنالیا ہے۔
دنیا کے ستاون مسلم ممالک معاشی اور سماجی عالمی اشاریوں میں نچلے درجوں پر ہیں، مگرٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی کرپشن لسٹ پراوپرہیں۔آج کے علم اورسائنس کے معجزوں میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ساری مسلم دنیا میں 700 یونیورسٹیاں ہیں، جبکہ صرف امریکہ میں ساڑھے پانچ ہزار یونیورسٹیاں ہیں ۔57اسلامی ممالک علمی تخلیق نہیں کررہے‘وہ اپنی جی ڈی پی کا اعشاریہ دو فیصد ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر خرچ کرتے ہیں، جبکہ یورپی ممالک پانچ فیصد۔جتنے سائنسی مقالات یورپ میں شائع ہوتے ہیں،ان کا بیسواں حصہ بھی مسلم دنیا میں نہیں ہوتا۔
ہماری غیرت ایمانی اجازت نہیں دیتی کہ ہم اپنی مقدس ہستی کی توہین برادشت کریں ۔اس لئے ہم احتجاج کرتے ہیں،کرتے چلے جاتے ہیں مگر ہمارے احتجاج کا اُن پر کوئی اثر نہیں ہوتا،نہ ان کی زندگی میں کوئی خلل پڑتاہے، لہٰذاہمیں احتجاج سے بڑھ کوئی جاندار حکمت عملی اپنانی چاہئے، جس سے اس توہین کاحساب برابر کیا جاسکے۔اگر ہماری غیرت ایمانی وقتی ابال نہیں ہے جو ایک آدھ احتجاج کے بعد ٹھنڈی پڑجائے گی،اگر یہ محض جذبے کی جھاگ نہیں ہے تو ہمیں اسے اپنی قوت بنانا چاہئے ۔آج کی دنیا میں قوت کی بنیادعلم اوردانش اور سائنس پر ہے،جہاں دانش تخلیق نہیں ہوگی،سائنس پروان نہیں چڑھے گی،وہاں ٹیکنالوجی کہاں سے آئے گی۔ ٹیکنالوجی کے بغیر ترقی ممکن نہیں اوریہی معاشی خوشحالی اور خودداری کا ذریعہ ہے۔پاکستان کی کل ایکسپورٹ میں صرف ایک فیصد ہائی ٹیک مصنوعات ہیں ، سعودی عرب کی اس سے بھی کہیں کم اعشاریہ تین فیصد‘ اسی طرح کویت ‘مراکش اور الجزائر بھی اعشاریہ تین فیصد جبکہ ساڑھے چھ سو مربع کلو میٹر پر ساڑھے اکتالیس لاکھ افراد والے ملک سنگاپورکی 58فیصد ایکسپورٹ ہائی ٹیک ہے ۔
مسلمانوں کا ماضی بڑا شاندار رہا ہے ۔دنیا کی پہلی یونیورسٹی الازہر یونیورسٹی 975ء میں قائم ہوئی،جبکہ یورپ کی پہلی آکسفورڈیونیورسٹی اس سے سو سال بعد بنی۔دسویں صدی میں مسلم سپین کے دارالحکومت قرطبہ کی پکی گلیاں سٹریٹ لائٹس سے چمکتی تھیں،جبکہ یورپ کے شہر تاریکی میں ڈوبے ہوتے اور گلیاں کیچڑ سے اٹی ہوتیں۔قرطبہ میں ستر سے زائد لائبریریاں تھیں اوران میں ایک لائبریری میں پانچ لاکھ سے زائد کتابیں تھیں جبکہ پورے فرانس میں بھی اتنی کتابیں نہیں تھیں،لیکن ہم نے علم کا راستہ چھوڑ دیا۔ گزشتہ 400 سال سے ہم نے سائنس اور دانش میں کوئی کنٹری بیوشن نہیں کی ۔ان 400 سال میں مغرب نے ہماری تحقیق سے فائدہ اٹھایااور ترقی کی منازل طے کرتا گیا۔ہم ان کی ترقی ان سے چھین نہیں سکتے،انہیں نقصان پہنچانابھی چاہیں تو نہیں پہنچا سکتے۔ البتہ اپنے آپ کو اوپر اٹھاسکتے ہیں،اتنا اوپر کہ کوئی ملعون ہماری مقدس ہستی کی توہین کا سوچ بھی نہ سکے۔
ہم کب تک محض احتجاج کرتے رہیں گے اور مارنے مرنے کے نعرے لگاتے رہیں گے۔جلسے جلوس اورمظاہرے کر کے،راستے بند کرکے غیرت ایمانی کے تقاضے پورے کرتے رہیں گے ۔ہمیں ٹھنڈے دل و دماغ سے سنجیدگی سے غورکرنے کی ضرورت ہے ‘دشمن کی چالوں میں الجھنے سے بچ کر بدلی ہوئی دنیا کو سمجھنے اور اس میں نئی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے ۔آج کا ہتھیار علم ہے،دلیل اور دانش ہے،ان ہتھیاروں سے علمی میدانوں میں معرکے برپا کرکے ہی عزت اور عظمت کے پرچم سربلند کرسکیں گے۔