سپیکر کے فیصلے سے سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کی نمائندگی ختم

سپیکر کے فیصلے سے سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کی نمائندگی ختم
سپیکر کے فیصلے سے سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کی نمائندگی ختم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ:- قدرت اللہ چودھری
                       تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جن دنوں اسلام آباد ڈی چوک میں دھرنا نشین تھے کم و بیش روزانہ اپنے کنٹینر سے خطاب کیا کرتے تھے، شروع شروع میں تو کچھ باتیں نئی تھیں لیکن شدہ شدہ یہ خطاب پرانی تقریروں کا نقش ثانی بن کر رہ گیا تھا ، روزانہ یہ اعلان بھی کیا جاتا تھا کہ تحریک انصاف کے قومی اسمبلی کے تمام ارکان مستعفی ہو چکے ہیں۔ اب وہ ایوان میں واپس نہیں جائیں گے لیکن چند ارکان اپنے چیئرمین کی اس ہدایت کو نظر انداز کر کے اسمبلی میں جانا شروع ہو گئے اور وہاں جا کر سپیکر سے کہا کر وہ اپنی آزاد مرضی سے مستعفی نہیں ہوئے تھے اس لئے ان کے استعفوں پر مزید کوئی کارروائی نہ کی جائے قومی اسمبلی کے مستعفی ارکان میں صرف ایک باغی بالائے بام آیا اور اس نے قومی اسمبلی میں ایک انکشاف انگیز تقریر کے بعد مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا،جاوید ہاشمی کی خالی نشست پر ضمنی الیکشن بھی ہو گیا اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ملک عامر ڈوگر آزاد حیثیت میں قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہو گئے، تحریک کے باقی ارکان، چیئرمین سمیت، اجلاس میں تو نہیں آ رہے، لیکن تنخواہیں اور سہولتیں بدستور انجوائے کر رہے ہیں، اب بھی چیئرمین نے اعلان کر رکھا ہے کہ جب تک جوڈیشل کمیشن نہیں بنتا ان کا کوئی رکن اسمبلی نہیں جائیگا اگرچہ ایسی آرا بھی سامنے آ چکی ہیں کہ سپیکر کی میزپرجو استعفا پہنچ جاتا ہے اسے مسترد کرنے کا اختیار سپیکر کے پاس نہیں ہوتا۔ وہ اسے منظور کرنے کا پابند ہوتا ہے ۔لیکن سپیکر صاحب اپنی تاویلات میں الجھ کر استعفوں کو منظور نہیں کر رہے البتہ اب اس معاملے میں سندھ اسمبلی کے سپیکر بازی لے گئے ہیں،بھول بھلیوں کا مزید شکار ہوئے بغیر جنہوں نے سندھ اسمبلی کے چاروں مستعفی ارکان کی نشستوں کو خالی قرار دینے کا نوٹی فیکیشن جاری کروا دیا ہے اور اس سے الیکشن کمیشن کو بھی آگاہ کر دیا ہے۔ سپیکر نے تحریک انصاف کے چاروں ارکان کے استعفے منظور کرنے کا فیصلہ سینیٹ کے الیکشن کا شیڈول جاری ہونے کے بعد کیا ہے سپیکر آغاز سراج درانی نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ معاملات حل کرنے کی پوری کوشش کی ستمبر2014ءمیں انہوں نے استعفے دیئے ہم نے انہیں کافی وقت دیا، لیکن وہ اسمبلی میں واپس نہیں آئے اس لئے ہم نے سندھ اسمبلی کے چاروں ارکان کے استعفے منظور کر لئے ہیں ان ارکان میں ثمر علی خان، خرم شیرزمان، سید حفیظ الدین اور ڈاکٹر سیما ضیاءشامل ہیں۔
سیاسی جرگے کے رکن عبدالرحمٰن ملک کا کہنا تھا کہ استعفے منظور ہو گئے تو سیاسی بحران سنگین ہو جائیگا جرگے کے رکن امیر جماعت اسلامی سراج الحق بھی استعفوں کی منظوری کے خلاف تھے اور سپیکر کو استعفے منظور نہ کرنے کے مشوروں سے نوازتے رہتے تھے۔ لیکن اب جبکہ رحمان ملک کی اپنی جماعت کے سپیکر نے مستعفی ارکان کے استعفے منظور کرلئے ہیں۔ جلدی میں یہ استعفے منظور کرنے کی بظاہر تو کوئی وجہ اس کے سوا نظر نہیں آتی کہ یہ ارکان سینیٹ کے الیکشن میں دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر کوئی کردار ادا نہ کر سکیں،یہ چاروں ارکان اگر مخالف جماعتوں کے ساتھ مل کر پہلی ترجیح کا ووٹ استعمال کرتے تو سینیٹ میں کسی ایک رکن کو منتخب کرا سکتے تھے،اب یہ ممکن نہیں ہوگا ۔سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کی نمائندگی ختم ہوگئی ہے اور یہ اسمبلی بلوچستان کے بعد دوسری اسمبلی بن گئی ہے جہاں تحریک انصاف کا کوئی رکن نہیں۔
تحریک انصاف کے ایک رکن سید حفیظ الدین کو الیکشن ٹربیونل نے دھاندلیوں کا مرتکب قرار دے کر جماعت اسلامی کے عبدالرزاق خان کو کامیاب قرار دے دیا تھا جس کے خلاف حفیظ الدین سپریم کورٹ میں چلے گئے اور وہاں اپنے حق میں حکم امتناعی لینے میں کامیاب ہوگئے، عمران خان کی ٹرمینالوجی استعمال کی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ” سٹے آرڈر کے پیچھے چھپ گئے“ وہ اس سٹے آرڈر کی بنیاد پر ہی اب سندھ اسمبلی کے رکن تھے، سندھ اسمبلی کے سپیکر کے فیصلے کے بعد اب ان کی نشست بھی خالی ہوگئی ہے۔
اب دوصوبائی اسمبلیاں ایسی ہیں جن میں تحریک انصاف کی نمائندگی ہے۔ خیبرپختونخوا میں تو اس کی حکومت ہے اور اگر تحریک انصاف سینیٹ کے الیکشن میں حصہ لے تو صوبے سے گیارہ میں سے چھ ارکان منتخب کرانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں بھی اس کے ارکان ایک رکن یا دو ارکان منتخب کرا سکتے ہیں۔جہاں تک قومی اسمبلی کا تعلق ہے سینیٹ کے الیکشن میں اس کے ارکان صرف وفاقی دار الحکومت سے سینیٹ کا رکن منتخب کرتے ہیں ۔ یہ رکن مسلم لیگ (ن) ہی منتخب کراپائے گی۔ اسی طرح پنجاب سے بھی سینیٹ کے اکثریتی ارکان کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہی ہوگا۔لیکن سوال یہ کیا پنجاب اسمبلی کے سپیکر بھی کہیں سندھ اسمبلی کے نقش قدم پر تو نہیں چل پڑیں گے؟

مزید :

تجزیہ -