ایرانی رہنما کی طرف سے سعودی سفارت خانے پر حملے کی مذمت
ایران کے سپریم لیڈر آیت العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ تہران میں سعودی سفارت خانے پر حملہ غلط اقدام تھا اس سے ایران اور اسلام کو نقصان پہنچا۔۔۔ قبل ازیں ایرانی صدر حسن روحانی بھی سفارت خانے پر حملے کی مذمت کرچکے ہیں۔ اعلیٰ ترین سطح پر ایرانی قیادت کی جانب سے سعودی عرب کے سفارتخانے اور مشہد میں قونصل خانے پر حملے کی مذمت سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایران، سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات میں مزید بگاڑ نہیں چاہتا بہتر تعلقات کی خواہش بھی اس مذمت سے جھلکتی ہے۔ ایرانی رہنما کو یہ بھی احساس ہے کہ ایرانی نوجوانوں کے اس اقدام سے ایران کا تشخص مجروح ہوا ہے اور تصور اسلام کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اب اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ایران میں ان عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے جنہوں نے ایرانی سفارتخانے اور قونصل خانے پر حملہ کیا، دراصل یہی حملہ تھا جو دونوں ملکوں کے درمیان خرابی کو انتہا پر لے گیا اور اسی حملے کے جواب میں سعودی عرب نے اپنا سفیر تہران سے واپس بلا لیا ورنہ دنوں ملکوں کے تعلقات میں ایک خاص قسم کی کشیدگی کے باوجود معمول کے سفارتی تعلقات موجود تھے اور ہر قسم کے دوسرے معاملات بھی معمول کے مطابق ہو رہے تھے۔ اب اگر ایران کے دونوں اعلیٰ ترین رہنماؤں نے سعودی سفارتخانے پر حملوں کی مذمت کردی ہے تو اس کا لازمی نتیجہ اُن عناصر کے خلاف کارروائی بنتا ہے جو اس کے ذمہ دار ہیں۔ اب سعودی عرب کو بھی اس مذمت کے بعد اپنے تعلقات معمول پر لانے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے دونوں ملکوں کا دورہ بھی خاص طور پر اس مقصد کیلئے کیا تھا۔ ایران نے فوکل پرسن مقرر کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے، اب اگر سعودی عرب بھی اس ضمن میں قدم آگے بڑھاتا ہے تو اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات معمول پر لانے میں بھی مدد ملے گی۔ موجودہ حالات میں امت مسلمہ کے دو بڑے ملکوں کے تعلقات میں بہتری وقت کی ضرورت ہے اور توقع ہے سید علی خامنہ ای کے بیان کے بعد اس سلسلے میں کافی مدد ملے گی۔