’’ دیکھ اپنا جہاں‘‘

’’ دیکھ اپنا جہاں‘‘
 ’’ دیکھ اپنا جہاں‘‘

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میں اسلامی جمعیت طلبا کی دعوت پر لاہور کے انٹرنیشنل ایکسپو سنٹر میں سٹوڈنٹس ایجوکیشن ایکسپو میں موجود تھا، میں جب وہاں پہنچا تو جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق خطاب کررہے تھے، وسیع و عریض ایکسپوسنٹر میں بلاشبہ ہزاروں کی تعداد میں نوجوان موجود تھے، کھوے سے کھوا چھل رہا تھا، مجھے اپنے نوجوانوں کو اتنی بڑی تعداد میں ایک مثبت سرگرمی میں مصروف دیکھ کر اچھا لگا۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں عار نہیں کہ میں طلبا تنظیموں کابوجوہ مخالف ہوں کہ میں نے انہیں نوجوانوں کا لہو بہاتے اور ماوں سے ان کے بیٹے چھینتے ہوئے دیکھا ہے ، طلبا تنظیموں سے وابستہ نام نہاد طالب علم رہنما قبضے کرتے رہے، گولیاں چلاتے رہے ، اپنے والدین کی کمائی برباد اور اپنا مستقبل تباہ کرتے رہے۔ جمعیت اس الزام سے انکا رکرتی ہے کہ اس نے دوسری طلبا تنظیموں کی طرح بدمعاش پیدا کئے ہیں مگر اس سے تو بہرحال انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پلاٹوں اور پلازوں پر نہ سہی مگر تعلیمی اداروں پر قبضوں میں یہ تنظیم ضرور ملوث رہی ہے ، جہاں جمعیت ہوتی تھی وہاں ایم ایس ایف، پی ایس ایف ، اے ٹی آئی اور دیگر تنظیموں کو اپنے یونٹ کھولنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی اور جہاں دوسری تنظیمیں ہوتی تھیں وہ اسلامی جمعیت طلبا کے کارکنوں کی ’’ انٹری بین‘‘ کر دیتی تھیں۔ اس کے نوجوانوں نے اگر گولیاں کھائی ہیں تو انہوں نے گولیاں ماری بھی ہیں۔ یہ سلسلہ اس وقت ہی تھما تھا جب طلبا تنظیموں پر باقاعدہ پابندی عائد کر دی گئی تھی۔


تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ طلبا تنظیمیں ، طالب علموں کو ہمت اور جرات عطا کرتی ہیں۔ وہ معاشرہ جس میں حکومتیں سیاست کی نرسریاں یعنی بلدیاتی ادارے قائم نہ کرتی ہوں وہاں اسلامی جمعیت طلبا سمیت دیگر طلبا تنظیموں نے قوم کو جرات مند اور بلند حوصلہ سیاسی قیادت فراہم کی ہے۔ میں طلبا تنظیموں کے اس کردار کو ہمیشہ سے سراہتا رہا ہوں مگر میرا موقف یہ ہے کہ ہمیں یہ قیادت اپنے طالب علموں کی جانوں کی قیمت پر نہیں چاہئے۔ خاندانوں اور روپوں کی بنیاد پر چلنے والے سیاسی نظام میں ہم طلبا سیاست کے ذریعے قاضی حسین احمد، لیاقت بلوچ، منور حسن اور سراج الحق کے علاوہ جہانگیر بدر، جاوید ہاشمی ، سعد رفیق جیسے گنتی کے چند رہنما ہی حاصل کر سکے ہیں۔ اس وقت حکمران جماعت مسلم لیگ نون عملی طور پر اپنا سٹوڈنٹس ونگ ختم کر چکی ہے۔ اس سے پہلے پرویز مشرف کے دور میں چودھری پرویز الٰہی نے اس کا باقاعدہ اعلان کیا تھا مگر اسلامی جمعیت طلبا موجود ہے اور اپنی موجودگی کا احساس بھی دلاتی رہتی ہے۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں بھی عار نہیں کہ جمعیت کی موجودگی ہمارے تعلیمی اداروں میں بڑھتے ہوئے مخلوط ماحول کو قابو میں رکھنے کے لئے ضروری ہے۔ معذرت کے ساتھ، میں نے اپنی پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں تنگ جینزاور سلیو لیس پہنے ہوئے لڑکیوں اور لڑکوں کوچرس بھرے سگریٹوں کے مرغولے اڑاتے، شیشہ کیفوں میں رات گئے تک کمبائنڈ سٹڈی کے نام پراپنے خاندانوں کی عزت کا جنازہ نکالتے دیکھا ہے ۔میں نے بہت سارے والدین کو آج بھی پنجاب یونیورسٹی کے مقابلے میں پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں داخلے کے نام پر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے دیکھا ہے۔ میرے جمعیت سے ڈھیرسارے اختلاف ہو سکتے ہیں مگر بہرحال یہ طلبا تنظیم اللہ، نبیؐ ، قرآن اور حدیث کی بات کرتی ہے۔جماعت اسلامی کی طرح جمعیت میں جمہوریت بھی موجود ہے، اس کے عہدے دار تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔


جمعیت نے سٹوڈنٹس ایکسپو کا سلوگن رکھا، ’’ دیکھ اپنا جہاں‘‘ ، جس وقت اس بہت بڑی ایکسپو کا افتتاح ہو رہا تھا ا س وقت ہمارے جہاں پر باچا خان یونیورسٹی پرہونے والا دہشت گردوں کا حملہ چھایا ہوا تھا،یہی وجہ ہے کہ اس سٹوڈنٹس ایکسپو کو میڈیا پر خاطر خواہ کوریج نہیں مل سکی۔ یوں بھی میڈیا جتنا جماعت اسلامی کی حلیف جماعت پی ٹی آئی کے ساتھ فرینڈلی ہے، اتنا جماعت اسلامی کے ساتھ نہیں ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق ہزاروں نوجوانوں سے حلف لے رہے تھے کہ کرپشن اور وی آئی پی کلچر کے خاتمے میں ان کا ساتھ دیں۔ وہ میرٹ اور تعلیم کو اپنی ترجیحات بیان کر رہے تھے۔اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے کہ تمام مہذب ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی تمام طالب علموں کے پاس تعلیم حاصل کرنے کے یکساں مواقع ہوں۔ وہ اعلان کر رہے تھے کہ تعلیم مفت کردیں گے ، یہ کام پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی پہلے ہی کر چکے ہیں۔وہ کہہ رہے تھے کہ خواتین کا بنک قائم کریں گے اور یہ بنک محترمہ بے نظیربھٹو پہلے ہی قائم کر چکی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پی ٹی آئی کی حلیف جماعت کے طور پر ان کے پاس ابھی وافروقت اور مواقع ہیں کہ وہ اپنا ایجنڈا پاکستان کے اس ایک صوبے پر نافذ کر کے دکھائیں جہاں ان کی حکومت قائم ہے۔ خیبرپختونخوا میں ہونے والی تعلیمی اصلاحات کے مثبت نتائج کا انتظار ہے۔ جماعت اسلامی کے وزیر بلدیات عنایت اللہ خان نے پانچ ماہ کی قلیل مدت میں باب پشاورنامی فلائی اوور مکمل کر کے ایک کارنامہ کیا ہے۔ہوسکتا ہے کہ اسلامی جمعیت طلبا انہیں ہمیشہ کی طرح تعلیمی اداروں سے کسی حد تک ووٹ بنک لے دے مگر اب پاپولر ووٹ اسی کو ملے گا جو پرفارم کرے گا۔ پچھلے انتخابات پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون کو دی گئی گالیوں پر لڑے جا چکے مگر اگلے انتخابات میں اپنے اپنے صوبے میں کی گئی خدمت کا کارڈ ہی چلے گا۔ سراج الحق ایک اچھے سیاسی کارکن ہیں، وہ کہہ رہے تھے کہ وہ وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کریں گے، میں حکومتی عہدے داروں کے بڑے بڑے پروٹوکول کی کیسے حمایت کر سکتا ہوں مگر عملی صورتحال یہی ہے کہ جب تک ہم دہشت گردی کے عفریت سے نجات حاصل نہیں کرلیتے تب تک آپ اسے سیکیورٹی کہیں یا پروٹوکول، اس سے نجات حاصل نہیں کی جاسکتی۔


یہ میرے دوست محمد سعد کی دعوت تھی ، یہ دعوت نامہ دینے کے لئے احمد فوزان کے ہمراہ تشریف لائے تھے۔ میرے لئے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ اس دعوت کو قبول نہ کرتا مگر میں جمعیت کی عظیم الشان سٹوڈنٹس ایکسپو کے دوران یہی سوچتا رہا کہ کاش ہماری طلبا تنظیمیں ماضی سے سبق سیکھیں۔ یہ تو ممکن نہیں کہ جمعیت ، جماعت اسلامی کو چھوڑ دے مگر یہ تو ممکن ہے کہ تمام طلبا تنظیمیں کسی ضابطہ اخلاق پر متفق ہو جائیں۔ وہ ضابطہ اخلاق جس میں تعلیمی اداروں میں کسی غنڈہ گردی اور کسی قبضے کا کوئی تصور نہ ہو۔ کسی بھی طالب علم رہنما کے پاس اسلحہ نہ ہو اور نہ ہی اس پر مقدمات درج ہوں۔ کسی بھی تعلیمی ادارے میں اگر دائیں بازو والوں کا یونٹ ہو تو وہاں بائیں بازو والے بھی اپنا یونٹ کھول سکتے ہوں۔ سب بیٹھ کر آپس میں نظریاتی بحثیں کریں، حکومتوں کی کارکرگیوں کو زیربحث لائیں ، نظریاتی اختلاف کا مطلب باہمی دشمنی نہ ہو۔ مائیں اپنے بچوں کو امام ضامن باندھنے پر مجبور نہ ہوں۔مجھے علم ہے کہ یہ صرف خواب ہیں، خیال ہیں لیکن خواب دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم نہ سہی، ہماری آنے والی نسلیں ایک نیا جہان، خوابوں اور خیالوں میں بسا ایک ایسا پاکستان بنانے میں کامیاب ہوجائیں۔

مزید :

کالم -