سانحہ چارسدہ کا ماسٹر مائنڈ عمر منصور افغان صوبے ننگر ہار کے علاقے میں ہے :رحیم اللہ یوسف زئی
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک ) ماہر پاک افغان امور رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا ہے کہ باچا خان یونیورسٹی میںحملے کے ما سٹر مائنڈ کا نام اورنگزیب ہے اور یہ اپنے آپ کو خلیفہ عمر منصور کہتا ہے۔عمر منصور افغان صوبے ننگرہار کے علاقے نازیان میں ہے لیکن اس کا ٹھکانہ ایک نہیں ہے یہ افغانستان کے دیگر علاقوںمیں بھی دیکھا گیا ہے ۔ننگرہار صوبہ پاکستان کی خیبر اور مہمند ایجنسی سے ملا ہوا ہے ۔سانحہ چارسدہ کے حوالے سے ایک ویڈ یو بھی آئی ہے جس میںملا منصور نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور مزید حملے کرنے کی دھمکی بھی دی ہے ۔ملا منصور کہہ رہا ہے کہ وہ پورے پاکستان میں تعلیمی اداروں کو نشانہ بنائے گا کیونکہ ان تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے مستقبل میں جمہوریت جیسے سیکولر نظام کے لیے کام کریں گے ۔
نجی نیوز چینل ”نیو نیوز“کے پروگرام ”لائیو ود نصر اللہ ملک“ میں گفتگو کرتے ہوئے رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا کہ جب افغان صدر ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں آئے تو وہا ں تقریر کے دوران اشرف غنی واضح طور پر ملافضل اللہ کے افغانستان میں موجودگی کا اظہار کیا اور دعویٰ کیا کہ ملا فضل اللہ کے خلاف کارروائی کی گئی ہے ۔افغان خفیہ ایجنسی کے سربراہ جنر ل رحمت اللہ نبیل نے اس بات پر استعفیٰ دیا کہ اشرف غنی نے ملا فضل اللہ کی افغانستان موجودگی کیوں تسلیم کی۔ سمجھ نہیں آتا کہ اب افغان حکومت ان طالبانوں کے افغانستان میں موجودگی سے انکار کیوں کر رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگر افغان حکومت نہ بھی مانے تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان پر حملہ کرنے والے یہ دہشت گرد افغانستان میں ہی ہیں ۔رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا کہ افغانستان میں مخلوط حکومت ہے جس میں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کا آدھا آدھا حصہ ہے ۔اشرف غنی منتخب صدر تو ہیں لیکن ان کے پاس افغان آرمی اور خفیہ اداروں سمیت دیگر اداروں کی مکمل سپورٹ نہیں ہے ۔اشرف غنی کی حکومت بہت کمزور ہے جس کے پاس زیادہ اختیارات نہیں ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ2009میں سوات میں آپریشن کے دوران ملا فضل اللہ فرار ہو کر افغان صوبے نورستان میں گیا اور پھر وہا ں سے کنڑ چلا گیا ۔جب ملا فضل اللہ اور دیگر طالبان جب افغانستان گئے تو یہ اطلاعات تھیں کے کچھ افغان طالبان کمانڈروں نے انہیں پناہیں دی ہیں ۔رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا کہ اب پاکستان طالبان کے انفرادی سطح پر کچھ افغان طالبان کمانڈروں سے رابطہ ہے لیکن تنظیمی سطح پر افغان طالبان بھی پاکستانی طالبان سے مایوس ہو چکے ہیںاو ر ان کے تعلقات بھی خراب ہو رہے ہیں ۔باچا خان یونیورسٹی پر حملے کا دعویٰ ملا منصور نے کیا لیکن اس کی تنظیم کی طرف سے اس کی تردید کی ۔انہوں نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان کے وہ عناصر جو ملا فضل اللہ سے ناراض ہیں ،وہ اب داعش کے ساتھ مل گئے ہیں ۔