گالیوں اور لعن طعن کی سیاست
قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان بنایا تھا جو صاف ستھری سیاست کے ساتھ ساتھ صاف ستھری گفتگو کیا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے بدترین سیاسی مخالفین کے لئے بھی کبھی تہذیب اور اخلاق سے گرا ہوا کوئی لفظ نہیں استعمال کیا تھا اور مخالفین بھی قائد اعظم کی شائستگی کی مثالیں دیتے تھے۔
قائد اعظم کی رحلت کے بعد بھی پاکستان کی سیاست میں بہت سے طوفان اٹھے، چار مرتبہ فوجی ڈکٹیٹروں نے مارشل لاء لگایا، ملک کا نصف حصہ شیخ مجیب الرحمان نے الگ بھی کر دیا، کئی حکومتیں آئیں اور زبردستی گھر بھیجی گئیں لیکن گالم گلوچ کا ہماری سیاست میں کبھی رواج نہیں رہا۔
فوجی ڈکٹیٹر ہوں یا سیاست دان، حکومت والے ہوں یا اپوزیشن والے، حتی کہ علیحدگی پسند سیاست کرنے والے قوم پرست لیڈروں نے بھی نہ کبھی گالیاں دی تھیں اور نہ لعن طعن کی۔
بد ترین سیاسی مخالفین کے خلاف بولتے ہوئے بھی شرافت ، متانت اور شائستگی ہمیشہ ہی سب سیاست دانوں کے مدنظر رہی۔پھر 2013ء آگیا ، پاکستان کی سیاست میں گالیوں اور لعن طعن کا آغاز عمران خان نے اس سال چکوال میں ہونے والے الیکشن میں شکست کھانے کے بعد کیا۔
اس سے پہلے ہماری سیاست میں کئی برائیاں رہی ہوں گی لیکن گالم گلوچ اور لعن طعن کا رواج نہیں تھا۔ جس طرح ڈاکٹر طاہر القادری پاکستان میں دھرنا سیاست کے بانی ہیں، عمران خان گالیوں اور لعن طعن کی سیاست کے بانی ہیں۔
پچھلے چار سال سے ان دونوں صاحبان کی سیاست ایک دوسرے کے گرد گھوم رہی ہے۔ یہ دونوں سیاسی کزن کے طور پر بھی مشہور ہیں کیونکہ 2014ء میں انہوں نے ایک ساتھ اسلام آباد کے ریڈ زون میں دھرنا دیا تھا جس کے دوران پارلیمنٹ اور پاکستان ٹیلی ویژن پر مبینہ طور پر حملہ بھی کیا گیا اور سپریم کورٹ کے باہر شلواریں بھی دھو کر لٹکائی گئیں۔
ایک دوسرے کے گرد چار سال سے گھومتے گھومتے نوبت یہاں تک پہنچی کہ اس سال جنوری کی 17 تاریخ کو متحدہ اپوزیشن کے نام پر تخت لاہور پر لشکر کشی کی ناکام کوشش بھی کی گئی، جس میں آصف زرادری بھی ان کے ساتھ تھے۔
یہ الگ بات ہے کہ لشکر کشی کے دوران ہی آصف زرداری کو اپنی سیاسی حماقت کا احساس ہو گیا اور اپنے آپ کو بڑے سیاسی نقصان سے بچانے کے لئے انہوں نے پتلی گلی سے نکل جانے میں ہی عافیت جانی۔
عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ ساتھ ان کے ایک اور سیاسی کزن شیخ رشید بھی چار سال سے نتھی ہیں کیونکہ انتشار کی سیاست میں وہ کسی سے کم نہیں۔ شیخ صاحب بڑ بولا ہونے کے علاوہ سیاسی پیش گوئیاں کرتے رہنے کے بھی عادی ہیں یہ اور بات ہے کہ ان کی ننانوے فی صدپیش گوئیاں غلط ثابت ہوتی ہیں۔
انہوں نے 2014ء میں عید قربان سے پہلے حکومت جانے کی پیش گوئی کی تھی کہ قربانی سے پہلے حکومت کی قربانی ہو گی۔ اب 2014ء سے 2018ء آچکا ہے لیکن قربانی کی پیش گوئیاں اسی ڈھٹائی سے جاری ہیں، نہ حکومت جاتی ہے اور نہ شیخ رشید نئی تاریخ دینے سے باز آتے ہیں۔
اب 17 جنوری کو لاہور میں متحدہ اپوزیشن کا جلسہ مایوس کن تو تھا ہی جس میں شیخ رشید اور پھر عمران خان کی طرف سے پارلیمنٹ پر لعنت بھیجی گئی۔ پاکستان کی ریاست اور آئین کو نہ ماننے والے بعض منحرف علیحدگی پسند سیاست دان تو پارلیمنٹ پر لعن طعن کرتے ہی ہیں لیکن ریاست اور آئین کو ماننے والے سیاست دانوں کی طرف سے پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے کا یہ پہلا واقعہ ہے، شائستہ ترین لیڈر قائد اعظم کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ ان کے بنائے ہوئے ملک میں گالیوں کی سیاست کی جائے گی۔
عمران خان پاکستان کی آج کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔ انہیں 2013ء کا الیکشن جیت کر وزیراعظم بننے کی بہت امید تھی لیکن ان کی پارٹی وفاق اور تین صوبوں میں الیکشن نہ جیت سکی، البتہ خیبر پختون خوا میں وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔
الیکشن میں شکست کی مایوسی اپنی جگہ، لیکن قومی اداروں کی تضحیک کا ان کا روپ پہلی دفعہ سامنے آیا تھا، جب الیکشن کے تین ماہ بعد انہوں نے سپریم کورٹ کو شرمناک کہنا شروع کر دیا۔ اس سے قبل تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ کوئی سیاست دان سپریم کورٹ کو شرمناک کہہ سکتا ہے۔
عمران خان کی جان بالآخر سپریم کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگنے کے بعد ہی چھوٹ سکی۔ سپریم کورٹ کو بار بار شرمناک کہنے اور بالآخر معافی نامہ جمع کروانے کا درمیانی عرصہ پہلے تو ڈھٹائی سے اپنے الفاظ کا دفاع کرنے اور بعد میں توجیہات پیش کرتے گزارا گیا کہ فلاں ڈکشنری میں شرمناک کا یہ مطلب ہے اور فلاں کو شرمناک کہا ہے فلاں کو نہیں، وغیرہ وغیرہ۔
وہ بہت کچھ کہتے رہے لیکن معافی مانگ کر ہی خلاصی ہو سکی۔ اس کے بعد ایک سال ہی گزرا تھا کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے دھرنا سیاست کا آغاز کر دیا جس کی وجہ سے ملک میں سیاسی انتشار عام ہوا۔
اس دھرنے کے دوران انہوں نے اپنی مشہور زمانہ’’ اوئے ۔اوئے‘‘ والی تقریریں کیں۔ ’’اوئے نواز شریف‘‘، ’’اوئے آئی جی طاہر عالم‘‘، ’’اوئے چئیرمین نیب‘‘، ’’اوئے چئیرمین ایف بی آر‘‘، وغیرہ وغیرہ۔
پاکستانی یوتھ یعنی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد جو اس سے پہلے عمران خان کو آئیڈیل کے طور پر پسند کرتی تھی، اس اسلوب پر تڑپ کر رہ گئی،پاکستانی قوم کے لئے گالم گلوچ ناقابلِ قبول تھا اس لئے آہستہ آہستہ عمران خان کی سیاست پسپائی کا شکار ہوتی گئی اور یہی وجہ ہے 2013ء کے الیکشن کے بعد ہونے والے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے ہونے والے تقریباً تمام ضمنی اور بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں بھی تحریک انصاف کو شکست ہوئی۔
اسی طرح سپریم کورٹ نے بھی انتخابات میں دھاندلی کا الزام مسترد کرکے عمران خان کے خلاف فیصلہ دیا۔ پاکستان کی دو تہائی آبادی 35 سال سے کم عمر ہے، عمران خان کا خیال تھا کہ نوجوانوں کا یہ ووٹ بینک ان کے ساتھ ہے۔
شروع میں کسی حد تک ان کا خیال درست بھی تھا لیکن ان کے منہ سے جھڑنے والے ’’پھول‘‘ آہستہ آہستہ اس نوجوان ووٹ بینک کو مایوس کرتے چلے گئے۔
عمران خان کو سیاسی طور پر جتنا نقصان ان کی دشنام طرازی نے پہنچایا ہے کسی اور بات نے نہیں پہنچایا۔ پاکستان کا نوجوان با شعور ہے اور وہ شائستگی اور غیر شائستگی کے درمیان فرق کو اچھی طرح جانتا ہے۔
کنٹینر پر چڑھ کر 126 دن تک روزانہ ’’اوئے، میں فلاں فلاں کو جیل میں بند کر دوں گا‘‘سن سن کر نوجوان ان سے متنفر ہوتے گئے۔ اس کے بعد جو بھی ضمنی انتخاب آیا، تحریک انصاف کے لئے مایوسی کا پیغام ہی لایا ، لوکل باڈیز اور کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں تو پی ٹی آئی کا صفایا ہی ہو گیا حالانکہ 2013ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی نے کنٹونمنٹ علاقوں سے خاطر خواہ ووٹ لئے تھے۔
عمران خان کی گالیوں کی سیاست عوام کے نزدیک نا پسندیدہ تو تھی ہی، چند ماہ پہلے ایک اور کردار خادم حسین رضوی سامنے آ گیا جس نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر 23 دن دھرنا دے کر دونوں شہر بند کئے رکھے۔ عوام روزانہ کی بنیاد پر پیش آنے والی مشکلات سے پہلے ہی عاجز تھے ، مزید یہ ہوا کہ علامہ خادم حسین رضوی نے گالم گلوچ کے نئے ریکارڈ قائم کرنا شروع کر دئیے جس سے پاکستانی عوام میں گالیوں اور لعن طعن کی سیاست کے خلاف نفرت شدید ہوتی گئی۔
اس وقت پاکستانی عوام ذہنی طور پر سیاست میں کچھ بھی برداشت کر سکتے ہیں لیکن گالم گلوچ ، لعن طعن اور بلا جواز الزام تراشی نہیں۔ یہ عمران خان اور شیخ رشید کی بدقسمتی ہے کہ وہ عوام کا مزاج نہیں سمجھ سکتے
۔ یہی وجہ ہے کہ 17 جنوری کو لاہور میں ہونے والا پاور شو ٹھس تو ہوا ہی تھا کہ خالی کرسیاں ان سیاسی قائدین کا منہ چڑاتی رہیں، لیکن پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے کی حرکت نے عوام میں شدید غم و غصہ برپا کیا۔
کراچی سے خیبر تک شائد ہی کوئی پاکستانی ایسا ہو گا جس نے اس لعن طعن کی دل سے شدید مذمت نہ کی ہو۔ اس دن ایسا لگا کہ عمران خان کا ذہنی معیار خادم حسین رضوی کی سطح پر آ گیا ہے۔
جب عمران خان نے سپریم کورٹ کو شرمناک کہا تھا تو اس کے بعد وہ بہت دنوں تک لفظ شرمناک کی مختلف توجیہات دیتے رہے، آج کل وہ دوبارہ انہی مراحل سے گزر رہے ہیں، انہیں لفظ لعنت کی مختلف توجیہات دینا پڑرہی ہیں۔ عمران خان کی طرف سے گالم گلوچ کی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ وہ بنیادی طور پر سیاست دان نہیں بلکہ کرکٹ کے کھلاڑی ہیں۔
کرکٹ کے کھیل میں sledging ایک اہم ہتھیار تصور ہوتا ہے یعنی مخالف کھلاڑی کو نروس یا کنفیوز کرنے کے لئے اسے گالیاں دی جاتی ہیں۔ کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والے حضرات اس عمل سے بخوبی واقف ہیں اور کرکٹ کے میدان میں پیش آنے والے sledging کے بہت سے واقعات ان کے ذہنوں میں نقش بھی ہوں گے۔ کرکٹ کی بات اور ہے، عمران خان اب قومی سیاست کر رہے ہیں کرکٹ نہیں کھیل رہے۔
انہیں سمجھنا ہو گا کہ سیاست میں کرکٹ کا ماحول نہیں چلتا۔ ورنہ عوام انہیں ’’اوئے عمران خان‘‘ کہہ کر سیاست کے میدان سے آؤٹ کر دیں گے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں اخلاق سے گری ہوئی گفتگو کرنے والے سیاست دان کی سیاست ختم ہو جاتی ہے، ایسی مثالوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔یہ قائداعظم کا بنایا ہوا پاکستان ہے اور یہاں قائد اعظم کے نقش قدم پر چلنا ہو گا جس میں گالیوں اور لعن طعن کی سیاست کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔