شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 8

رائے سین سے دس بارہ میل ہی نکلے تھے کہ مغرب کی نماز کا وقت ہوگیا۔ ایک شاداب مقام پر ہم نے جیپ روک دی۔ قریب چشمے سے وضو کیا اور فریضہ مغرب ادا کرکے تھرموس سے ایک ایک پیالی چائے پی۔ سورج غروب ہوگیا تھا اور رفتہ رفتہ حسینہ شب کی زلفیں بکھرتی جارہی تھیں۔
اندھیرا ہونے سے قبل ہم آگے روانہ ہوگئے۔ مسعود نے اپنی تھرٹی اسپرنگ فیلڈ میں چار کارتوس بھرلئے تھے۔ میں نے وجہ پوچھی تو مسکرا کو بولا ’’اگر سڑک کے کنارے کوئی چیتل یا چکارہ مل جائے تو مارنے میں کیا مضائقہ ہے؟‘‘
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 7 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہم یہ باتیں کرہی رہے تھے کہ جیپ کی ہیڈلائٹ ایک بہت بڑے کالے ہرن پر پڑی اور ساتھ ہی مسعود نے جیپ رکنے کا انتظار کئے بغیر فائر کردیا۔ میں نے سوچا، فائر خالی گیا لیکن اچانک ہی وہ ایک طرف ٹیڑھا ہوا اور سڑک کے عین درمیان میں گرگیا۔ جیپ قریب پہنچ کر روک دی گئی۔ میں نے اتر کر ہرن کو جنت کی خاک بنایا اور مسعود کو چلتی جیپ پر سے کامیاب نشانہ لینے پر آفرین کہا۔
اس کے بعد گڑھی تک بے شمار جانور نظر آئے، لیکن ہم نے کوئی شکار نہ کیا۔ میرا تو خیر اصول ہی یہ ہے کہ منزل مقصود پر پہنچنے اور مطلوبہ جانور کو دیکھنے تک ہرگز کسی چیز پر فائز نہیں کرتا۔
گڑھی میں مجھے رحمتو کے متعلق پولیس کا ریکارڈ دیکھنے میں ایک روز لگ گیا۔ اسی شام گڑھی کے سب انسپکٹر نے عبدالرحیم کو میرے پاس بھیجا، جو تین مختلف شکاریوں کے ساتھ رہ کر متعدد دفعہ پالی پور کے آدم خور رحمتو کو ہلاک کرنے کی کوششیں ناکام ہوتے دیکھ چکا تھا۔ عبدالرحیم پختہ عمر کا تجربہ کار شکاری تھا اور تھوڑی دیر کی گفتگو کے بعد ہی مجھے تسلیم کرنا پڑا کہ وہ شیروں کے متعلق وسیع معلومات رکھتا ہے۔ قبل اس کے کہ وہ مجھے ان شکاریوں کی کوششوں کی تفصیلات سنائے، میں نے سب انسپکٹر کو بلا بھیجا اور اس کے آنے پر مَیں نے عبدالرحیم سے کہا کہ وہ میرے ہمراہ پالی پور چلے۔ مَیں جانتا تھا کہ عبدالرحیم انکار کرے گا کیونکہ اس کو کافی تلخ تجربات ہوچکے تھے اور اس نے آئندہ رحمتو کو ہلاک کرنے کی کوشش میں شرکت نہ کرنے کا عہد کرلیا تھا لیکن میری درخواست سن کر وہ خاموش ہوا تو سب انسپکٹر فوراً ہی میری تائید میں بول پڑا۔ عبدالرحیم میری طرف دیکھ کر مسکرادیا اور بولا ’’صاحب! میں تو عہد کرچکا تھا کہ اب آدم خور کے شکار کی کسی مہم میں نہ جاؤں گا۔ دو مرتبہ موت کے منہ سے بچ کر نکلا ہوں، لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ کی کوشش ناکام نہ رہے گی، اس لئے میں آپ کے ساتھ ضرور جاؤں گا۔‘‘
اس کے بعد اس نے ان شکاریوں کی کوششوں کی تفصیلات بیان کیں، جن کے دوران ایک مرتبہ تو رحمتو زخمی بھی ہوگیا تھا۔ میں نے ان تمام بیانات اور واقعات سے قیاس کیا کہ شیر تین سال کے عرصے میں بے شمار انسانوں کو شکار کرکے اور متعدد شکاریوں کی کوششوں کو ناکام بناکر بہت چالاک ہوگیا ہے۔ ابتدائی وارداتیں تو اس نے اس قدر جرأت و بے باکی کے ساتھ کیں کہ اگر ان کا سلسلہ جاری رہتا تو نہ پالی پور میں کوئی رہ سکتا نہ ہنڈی میں، کیونکہ اگر اسی طرح وہ گاؤں اور آبادیوں میں دلیرانہ گھس آیا کرتاتو پھر حفاظت کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوتی لیکن ہر نئے اقدام کے بعد اس کو سبق ملتا گیا اور اس کی چالاکی اور عیاری میں شدت آتی گئی۔(جاری ہے)