وہ علاقہ جہاں نوجوان لڑکوں کو اغواءکرکے ان کی زبردستی شادی کروادی جاتی ہے، اس کام کی وجہ جان کر مردوں کو گھر سے نکلتے ہوئے ہی ڈر لگنے لگے

وہ علاقہ جہاں نوجوان لڑکوں کو اغواءکرکے ان کی زبردستی شادی کروادی جاتی ہے، ...
وہ علاقہ جہاں نوجوان لڑکوں کو اغواءکرکے ان کی زبردستی شادی کروادی جاتی ہے، اس کام کی وجہ جان کر مردوں کو گھر سے نکلتے ہوئے ہی ڈر لگنے لگے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پٹنہ(نیوز ڈیسک)حال ہی میں بھارتی ریاست بہار سے ایک عجیب و غریب شادی کی ویڈیو سامنے آئی۔ اس ویڈیو میں دلہن تو خاموشی سے بیٹھی ہے لیکن دولہا زاروقطار روتا دکھائی دیتا ہے۔ دلہن کی رشتہ دار ایک خاتون غصے کا اظہار کرتے ہوئے اسے کہتی ہے ”چپ ہوجاﺅ، ہم تمہیں پھانسی تو نہیں لگارہے!“ پھر ایک معمر خاتون آگے بڑھتی ہے اور اپنے دوپٹے کے پلو سے دولہے کے آنسو پونچھتے ہوئے کہتی ہے ”بس، بس، چپ کرجاﺅ۔ جو ہونا تھا ہوچکا!“
یہ بدقسمت دولہا 29 سالہ نوجوان ونود کمار ہے، جو بوکاروسٹیل پلانٹ میں جونیئر منیجر کے عہدے پر فائز ہے۔ پٹنہ شہر کے نواحی علاقے میں منعقد ہونے والی ایک شادی میں وہ بطور مہمان شریک تھا کہ وہاں سے کچھ مسلح افراد نے اسے اغوا کیا اور اپنے گاﺅں لے گئے۔ اس کے گاﺅں پہنچتے ہی ڈھول بجنے شروع ہوگئے اور لوگوں نے جمع ہوکر بھنگڑا ڈالنا شروع کردیا۔ دراصل یہ لوگ اپنی لڑکی کے لئے ایک خوبصورت اور نوجوان دولہا اغوا کرلائے تھے اور اب اس کی زبردستی شادی کروائی جا رہی تھی۔
شاید آپ کے لئے یہ معاملہ بہت حیران کن ہو گا لیکن بھارتی ریاست بہار میں یہ کوئی انوکھی بات نہیںہے۔ یہاں دور دراز دیہاتوں میں لوگ صدیوں سے اپنی لڑکی کی شادی کے لئے لڑکا اغوا کرنے کی رسم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسے ”پکڑوا بیاہ“ کہتے ہیں۔
اگرچہ بھارتی حکومت اس رسم کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے لیکن بیگوسرائے، سماستی پور، پٹنہ اور لکھی سرائے جیسے اضلاع کے دور دراز دیہاتی علاقوں میں آج بھی یہ رواج عام ہے۔ ایک سینئر پولیس اہلکار نے بتایا کہ ”پکڑوا بیاہ“ کی روایت بھومی ہار اور یادیو جیسی اونچی ذاتوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ عام طور پر جب لڑکے کو اغواءکرلیا جاتا ہے تو بندوق کے زور پر اسے مجبور کیا جاتاہے کہ وہ لڑکی کے ساتھ ازدواجی تعلق استوار کرے۔ اس کا مقصد یہ یقینی بنانا ہوتا ہے کہ لڑکی حاملہ ہوجائے تاکہ اولاد ہونے کی صورت میں اغواءکئے گئے خاوند پر اس تعلق کو نبھانے کا سماجی و نفسیاتی دباﺅ اور بھی بڑھ جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر اغواءکئے گئے دولہے بالآخر اس جبری شادی کو قبول کرلیتے ہیں۔
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس عجیب و غریب شادی کے اکا دُکا واقعات رونما ہوتے ہیں تو ایسا نہیں ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق سال 2010ءمیں اس نوعیت کی شادیوں کے 1702 واقعات رونما ہوئے۔ سال 2016ءمیں یہ تعداد بڑھ کر 3070 ہوچکی تھی اور اکتوبر 2017ءمیں جمع کئے گئے ڈیٹا کے مطابق سال کے پہلے نو ماہ میں ہی اس قسم کی 3110 شادیاں ہوچکی تھیں۔