سانحہ ساہیوال پر مزید جھوٹ مت بولیں
19 جنوری کو ساہیوال میں جو واقعہ پیش آیا ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے ہم وطن عزیز میں انسانیت اور انسانی احساس کو معدوم ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ یہ ایسا المناک واقعہ ہے جس پر ہر آنکھ اشکبار ہے۔ امریکہ میں پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعہ جسے نو گیارہ کا نام دیا گیا ہے کے بعد سے دنیا میں جہاں اور بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں۔ وہیں دنیا کے بیشتر ممالک میں سیکیورٹی کے حوالے سے بھی بہت بڑا تغیر دیکھنے میں آیا ہے۔ مختلف ممالک میں قانون سازی کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نئے اختیارات تفویض کیے گئے ہیں۔
اور مختلف ناموں کے ساتھ نئی فورسز قائم کی گئی ہیں۔ ایئرپورٹس پر چیکنگ کے نئے انداز اپنائے گئے ہیں۔ الغرض دنیا کو ایک انجانے خوف میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔ ساہیوال میں جو واقعہ پیش آیا ہے یہ دنیا کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔
اس سے پہلے انگلینڈ اور یورپ کے دوسرے ممالک میں بھی سیکیورٹی فورسز کی غلطیوں سے کئی بے گناہوں کی موت واقع ہوئی ہے، لیکن فرق یہ ہے کہ وہاں کسی بچے کو ہلاک کیا گیا نہ بچوں کے سامنے ان کے والدین پر گولیاں چلائی گئیں۔ ایک اور فرق یہ ہے کہ مغربی ممالک میں ایسے حادثات کے بعد سیکیورٹی فورسز نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا۔
ہمارے ہاں اس کے برعکس اپنی غلطی کا اعتراف کرنا تو درکنار اپنی غلطی کو چھپانے کے لیے جھوٹ پر جھوٹ بولا جاتا ہے۔ اب آخری خبریں آنے تک حکومت اپنی فورسز کے دفاع میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ متاثرہ گاڑی میں دہشت گرد موجود تھے اور خودکش جیکٹ اور اسلحہ کی بھاری مقدار بھی تھی۔ دوسری طرف متاثرہ خاندان کو دو کروڑ روپے کی امداد کے ساتھ ساتھ ان کے بچوں کی تعلیم کی ذمہ داری بھی حکومت لے رہی ہے۔ ہمارے ملک کے بڑے مسائل میں سے ایک مسلہ یہ ہے کہ عوام کو ہمیشہ اندھیرے میں رکھا جاتا ہے۔
حکومتی سطح سے عوام کو کسی قسم کی درست اطلاعات نہ ہونے کی وجہ سے افواہیں جنم لیتی ہیں اور ہر بندہ اپنی مرضی کی تشریح کرتا نظر آتا ہے۔ ساہیوال کے سانحے پر بھی سیاست کی جا رہی ہے اور بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں۔ زیادہ لوگ نئے پاکستان کے نعرے پر طنز کر رہے ہیں اور موجودہ حکومت کی نااہلی کا رونا رو رہے ہیں۔
حالانکہ یہ واقعہ ہماری مجموعی نااہلیت کا شاخسانہ ہے، کیونکہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تربیت کی خامیوں کے ساتھ ساتھ ہر دور حکومت میں ان اداروں کے غلط استعمال کا وطیرہ اپنایا جاتا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے پورے نظام کو درست کیا جانا چاہئے اور تمام اداروں کی تربیت جدید تقاضوں کے عین مطابق نئے سرے سے کی جانی چاہیے۔
اگر عمران خان اور ان کی حکومت نیا پاکستان بنانے میں مخلص ہے تو پھر انہیں دنیا کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنی چاہیے اور ترقی یافتہ ممالک سے سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور ایک جدید اور مربوط نظام کی داغ بیل ڈالی جانی چاہیے۔ یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہیے کہ فول پروف سسٹم ہی ملک کو برائیوں سے پاک کر سکتا ہے۔ ایک ایسا نظام جس کے تحت لوگوں سے یکساں سلوک کیا جائے۔
قومی معاملات پر افہام و تفہیم پیدا کیا جائے، تاکہ آئندہ سے واقعہ ساہیوال جیسے حادثات پر سیاست چمکانے کی بجائے ایسے حادثات کے سدباب کے لیے ایک موقف اپنایا جا سکے۔
اب حکومت کو مزید جھوٹ بولنے اور واقعہ ساہیوال پر عوام میں ابہام پیدا کرنے کی بجائے اس واقعہ کی مکمل چھان بین کر کے اس کے ذمہ داروں کا تعین کرنا چاہیے اور اس میں ملوث کرداروں کو قرار واقعی سزا دی جانی چاہیے۔ اور آئندہ سے ایسے حادثات کی روک تھام کا بندوبست کرنا چاہیے۔عوام کو بھی چاہیے کہ حکومت پر تنقید کی بجائے اپنی قومی ذمہ داریاں سمجھیں اور اپنے ملک میں امن و امان قائم کرنے میں حکومت کا ہاتھ بٹایا جائے۔