آف شور تیل اور گیس کی تلاش!
ساحلِ سمندر کو انگریزی میں شور (Shore) کہتے ہیں ۔جدید جغرافیہ دانوں نے اس ساحل کے دو حصے کر رکھے ہیں۔ ایک زمینی اور دوسرا سمندری۔۔۔ آپ سوال کریں گے کہ ساحل تو نہ سمندر ہوتا ہے نہ زمین بلکہ دونوں کے درمیان کھڑا (یا لیٹا) ہوتا ہے تو پھر کیا زمین اور سمندر کیا۔۔۔ اسی شبے کو دور کرنے کے لئے ماہرینِ علومِ ارضی نے ساحل کا وہ حصہ جو پانی کو چھو رہا ہوتا ہے اس کے آگے چار پانچ سو کلو میٹر تک کے حصہء آب کو الگ کرکے اس کا نام ’آف شور‘ (Off Shore) رکھ دیاہے جس کا اردو میں مطلب ہے : ’’ساحل سے پرے پانی میں‘‘ ۔۔۔ اور ساحل کا جو حصہ خشکی پر ہوتا ہے اس کو بھی دو تین سو کلومیٹر تک لے جا کر اس کا نام ’’آن شور‘‘ (On Shore) رکھ دیا ہے جس کا مفہوم ہے: ’’ساحل سے پرے خشکی کی طرف۔‘‘ ۔۔۔ حالیہ برسوں میں پانامہ لیکس کیس میں ’’آف شور کمپنیوں‘‘ کا بڑا شور اٹھا جس نے تین بار کے منتخب وزیراعظم پاکستان کو ’’نگل‘‘ لیا۔
ان کے علاوہ اور سینکڑوں پاکستانی امراء ، رؤسا، تجاّر، سرکاری اہلکار اور سرمایہ چور ایسے بھی ہیں جن کے نام آف شور کمپنیوں میں آئے ہیں اور جن کے خلاف ہنوز حکومتِ پاکستان اور ہماری عدلیہ کچھ زیادہ نوٹس نہیں لے رہی۔ امید ہے ایک دن ایسا آئے گا جب اربابِ اقتدار اس طرف توجہ فرما دیں گے۔ (نجانے اس قسم کی صورتِ حال میں مجھے اکثر فارسی کے اشعار کیوں یاد آ جاتے ہیں۔ اب بھی ایک شعر نوکِ زبان پر آیا ہوا ہے۔ وہ سن لیں):
آناں کہ خاک را بہ نظر کیمیا کنند
آیا بَود کہ گوشہ ء چشمے بما کنند
[وہ لوگ جو ایک نگاہ ڈال کر مٹی کو سونا بنا دیتے ہیں، کاش ایسا ہو کہ اپنی اس نظر کا ایک گوشہ (کونا) ہماری طرف بھی کر دیں]
یہ تمہید برطرف! جس موضوع پر آج قلم اٹھا رہا ہوں اس کا تعلق آف شور اور آن شور تیل اور گیس کی تلاش سے ہے۔ ایامِ جوانی میں، میں نے کئی بار سوچا کہ ایک طرف خلیج فارس کے پانیوں میں اگر تیل اور گیس ہے اور بُو شہر اور آبادان کے ایرانی شہروں اور بندرگاہوں میں آف شور اور آن شور تیل اور گیس نکل نکل کر ایرانیوں کو سیراب کر رہی ہے تو دوسری طرف انڈیا کے مغربی ساحل پر آف شور تیل نکل رہا ہے۔
نہ صرف یہ بلکہ مہاراشٹر کے آن شور علاقوں میں بھی تیل اور گیس کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ میں سوچتا تھا کہ لے دے کے صرف پاکستان ہی کیوں اتنا بدقسمت ہے کہ خلیج فارس اور بحرہند کے درمیان ہوتے ہوئے بھی اس کے ساحل پر نہ سمندر میں کچھ ہے اور نہ ہی زمین پر۔۔۔ سوئی میں اور خیبرپختونخوا کے جن علاقوں سے کچھ نہ کچھ تیل اور گیس حاصل ہو رہے ہیں تو وہ تو ساحلِ بحر سے کوسوں دور ہیں۔
پھر ایک خیال یہ بھی تھا کہ بلوچستان کے آن شور اور آف شور علاقوں میں تیل اور گیس کے ذخائر تو موجود بیان کئے جاتے ہیں لیکن مغربی دنیا (امریکہ، برطانیہ، فرانس وغیرہ) نے جان بوجھ کر ان چھپے پاکستانی خزانوں کو ہنوز اس لئے پوشیدہ رکھا ہوا ہے کہ ان کی حریصانہ نگاہیں بلوچستان پر ہیں۔
ہم جانتے ہیں ایک مدت تک مغرب نے روس کو بحیرۂ عرب تک آنے نہ دیا۔ بہانہ یہ تھا کہ اس سمندر کے گرم پانیوں تک رسائی مغربی طاقتوں کے اثر و رسوخ کو کمزور کر دے گی۔ حالانکہ بات ’’گرم پانیوں‘‘کی نہیں گرم گیس اور گرم تیل کی تھی۔۔۔قیامِ پاکستان کے بعد مغربی اقوام یہ نہیں چاہتی تھیں کہ پاکستان تیل کے ذخائر سے نہال ہو جائے۔
ان کو ڈر تھا کہ پاکستان تو ’’بغیر تیل اور گیس‘‘ ایٹمی اور میزائلی قوت بن چکا ہے، اگر تیل اور گیس بھی نکل آئی تو وہ مغرب کی ہمسری کرنے لگے گا۔ ان کو خطرہ تھا ایک نو آزاد مسلمان قوم شائد ان سے بھی آگے نکل کر ان کے خلاف کوئی اور گل نہ کھلا دے!۔۔۔لیکن اب 70 برسوں کے بعد آخر کار یہ ’’گُل‘‘ کھِلتا نظر آ رہا ہے۔۔۔ گزشتہ برس جولائی میں خبر آئی تھی کہ ایگزن موبل کمپنی، پاک ایران بارڈر پر کھدائی کرکے تیل اور گیس تلاش کر رہی ہے اور اسے امید ہے کہ یہاں تیل کے بڑے بڑے ذخائر موجود ہیں اور گیس کے ذخائر تو کویت سے بھی زیادہ مقدار میں ہیں۔
مغربی دنیا کا ’’گاڈ فادر‘‘ امریکہ اب مشرق وسطیٰ سے جا رہا ہے۔ شام سے واپسی شروع ہو چکی ہے۔ اس کے 2000ٹروپس رختِ سفر باندھ کر واپس امریکہ سدھار چکے ہیں۔
سعودی عرب دیکھ چکا ہے کہ امریکہ ’بے وفا‘ اور ’طوطا چشم‘ نکلا ہے۔ عراق پر ایران کا غلبہ ہے۔ اور ایران کے خلاف امریکہ کی دشمنی کو اس کے اتحادیوں کی پہلے جیسی سپورٹ حاصل نہیں۔ اس کو یہ بھی معلوم ہے کہ وہ تن تنہا (یا اسرائیل کو ساتھ ملا کر)مشرق وسطیٰ کو نہیں ’’سنبھال‘‘ سکتا۔دوسری طرف، افغانستان سے نکلنے کے دن بھی قریب آتے جا رہے ہیں۔ 14ہزار امریکی فوجیوں میں سے 7ہزار کے انخلاء کا پروگرام بن چکا ہے اور امریکی انتظامیہ دیکھ چکی ہے کہ ناٹو کے سارے اتحادی مل کر بھی افغانوں کا عزم متزلزل نہیں کر سکے۔۔۔۔ جنگ عظیم اول سے لے کر آج کے دن تک امریکہ جہاں بھی گیا اور جہاں بھی میدانِ کارزار گرم کیا ہے، اس نے ہمیشہ اتحادیوں کو ساتھ ملایا ۔
لیکن اب وہ اتحادی بھی اس سے عاجز آ چکے ہیں۔ افغانستان کے تجربے نے ان کی کمر توڑ دی ہے اور وہ واپس یورپ کی گھپاؤں میں چلے جانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔۔۔ زہے افغانوں کا جذبہ ء آزادی جو ازلی اور دائمی ہے!۔۔۔
مستقبل کا سنریو (Scenerio) اب مشرق کا سنریو ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ تیل دریافت کرنے والی بعض مغربی کمپنیوں نے پاکستان کا رخ کیا ہے۔ ان کو امیدہے کہ نہ صرف پاکستان کے ’آف شور‘‘ علاقے میں تیل اور گیس موجود ہے بلکہ ’آن شور‘ علاقوں میں بھی اس معدنی دولت کی موجودگی کے غالب آثار مل رہے ہیں۔۔۔ خدا کرے ان کے اندازے اور تخمینے دوست ہوں!اس سلسلے کی تازہ ترین خبر یہ ہے کہ 16جنوری 2019ء کو ہمارے وزیرپٹرولیم غلام سرور خان نے ایگزن موبل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر، ارتضیٰ سید سے ان کے دفتر میں ملاقات کی اور معلوم کیا کہ آف شور کھدائی کیسی جا رہی ہے۔ وزیر موصوف کو بتایا گیا کہ انڈس جی بلاک (Indus G Block) میں کھدائی کا عمل جاری ہے۔ جو کنواں کھودا جا رہا ہے اس کا قطر 18سے 24انچ تک ہے۔
اس وقت 1900 فٹ کی گہرائی میں کھدائی ہو رہی ہے۔ اس گہرائی کو الٹرا ڈیپ (Ultra Deep) کہا جاتا ہے۔ آثار تو کامیابی کا پتہ دے رہے ہیں لیکن مارچ اپریل 2019ء تک بات کھل کر سامنے آ جائے گی۔ایگزن موبل نے 5500فٹ تک کھدائی کرنے کا ہدف ان کھدائی کرنے والی مشینوں کو دیا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ جب مارچ / اپریل 2019ء آیا تو اس گہرائی میں گیس کی مقدار اتنی ہو گی، جتنی آج کل سوئی گیس فیلڈ سے نکل رہی ہے۔ گیس کے ان ذخائر کا تخمینہ 3سے 8 ٹریلین مکعب فٹ تک لگایا گیا ہے۔
(ایک ٹریلین میں ایک ہزار بلین ہوتے ہیں)۔ یہ ذخائر پاکستان سے نکلنے والی کل گیس کے ذخائر کا 25سے 40فیصد ہو سکتے ہیں۔ اس کھدائی پر مامور دو کمپنیاں غیر ملکی ہیں یعنی ایگزن موبل اور ENI جو اٹلی کی کمپنی ہے اور باقی دو کمپنیاں پاکستانی ہیں۔ میں نے ایک گزشتہ کالم میں بھی لکھا تھا کہ چاروں نے برابر برابر سرمایہ کاری کی ہے یعنی ان میں سے ہر ایک کا حصہ 25% ہے۔
اس انڈس جی بلاک میں جو کھدائی کی جا رہی ہے اس سے تیل کے سلسلے میں بھی کافی امیدیں وابستہ ہیں۔ اٹلی کی کمپنی نے جو رِگ شپ (Rig Ship) اس کھدائی کے لئے لیز پر لیا ہے اس کا نام سیپم (Saipem) ہے۔آپ نیٹ پر جا کر اس رِگ شپ کی تصویر دیکھ سکتے ہیں جو کراچی کی بندرگاہ سے 230کلومیٹر جنوب مغرب میں کھدائی کر رہا ہے۔ اٹلی کی یہ کمپنی (ENI) تقریباً 20برس سے پاکستان میں تیل کی تلاش کر رہی ہے۔
اس طویل عرصے میں اس نے ان مختلف مقامات کا پتہ چلایا ہے جوپاکستان کے آن اور آف شور علاقوں میں تیل اور گیس کے ذخائر کے حامل ہیں۔ اس کھدائی پر لاگت کا تخمینہ 8کروڑ ڈالر لگایا گیا ہے۔ اس وقت کھدائی کرنے والے اس بحری جہاز (سیپم) پر 200لوگ کام کر رہے ہیں۔ اگر کھدائی کامیاب ہو گئی تو اس لیبر فورس کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔
یہ گیس پاکستان کے لئے آئندہ 25،30 برسوں کے لئے کافی ہو گی۔ بشرطِ کامیابی 2021ء میں جس جگہ کھدائی کی جا رہی ہے وہاں تیل اور گیس نکالنے کے لئے ویسی ہی مستقل تنصیبات بھی تعمیر کی جائیں گی جیسی دوسرے ملکوں کے آف شور علاقوں میں ہیں۔
یہ کھدائی اس لئے ممکن ہو سکی ہے کہ پاکستان نے کراچی بندرگاہ پر آنے والی مشینری پر درآمدی ڈیوٹی اور دیگر ٹیکس وغیرہ معاف کر دیئے ہیں۔گزشتہ حکومتوں کے ادوار میں ڈرلنگ کرنے والی مشینری کی درآمد پر ڈیوٹی معاف کرنے کے لئے کئی بار اصرار کیا گیا تھا لیکن اس وقت کے وزیر پٹرولیم اور وزیراعظم نے ہر بار ان کی درخواست رد کر دی۔
اس انکار کی پشت پر جو قوتیں کام کر رہی تھیں، ان کا تصور کرنا کچھ مشکل نہیں۔یہ وہی قوتیں ہیں جو نہیں چاہتیں کہ پاکستان تیل اور گیس کی پیداوار میں خود کفیل ہو جائے۔ آپ کو یاد ہو گا جب 11مئی 1998ء کو انڈیا نے 5جوہری دھماکے کئے تھے تو پاکستان جوابی دھماکوں کے لئے تیار تھا۔ لیکن امریکہ اور بڑی طاقتوں نے روکا اور لالچ دیا کہ ہم اربوں ڈالر نقد امداد دینے کو تیار ہیں، آپ دھماکے نہ کریں کہ اس سے خطے میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو جائے گی۔
اس وقت نوازشریف صاحب وزیراعظم تھے۔ یہ کریڈٹ ان کو دیا جاتا ہے کہ انہوں نے اربوں ڈالر کی نقد پیشکش ٹھکرا دی اور انڈیا کے 5دھماکوں کے جواب میں 28مئی 1998ء کو 6جوہری دھماکے کئے۔۔۔ یہی لالچ تیل اور گیس کی کھدائی میں بھی دیا گیا اور اس میں بعض عرب ممالک بھی شامل تھے جو امریکہ اور مغربی دنیا کے دوست تھے۔ لیکن آج حالات مختلف ہو چکے ہیں۔
نئی نوجوان عرب قیادت دیکھ چکی ہے کہ مغربی طاقتوں کا اصل چہرہ کتنا ’’حسین و شاداب‘‘ ہے اس لئے انہوں نے اس لالچ میں حصہ ڈالنے سے انکار کر دیا ہے اور پاکستان کو گرین سگنل دے دیا ہے کہ آپ جو چاہیں کریں۔
ویسے بھی نئے پاکستان کی قیادت پرانی سیاست گری سے بیزار ہے اور چاہتی ہے کہ پاکستان اقتصادی طور پرخود کفیل ہو اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے۔۔۔اور ہاں سچ یہ بتانا بھی شائد اس خبر کے تیقّن میں اضافہ کرے کہ وزیر پٹرولیم غلام سرور خان نے جب مسٹر ارتضیٰ سید، چیف ایگزیکٹو آفیسر ایگزن موبل سے ملاقات کی تو اس میں ایگزن موبل کے وائس پریذیڈنٹ مسٹر سٹیفن (Stephan)بھی موجود تھے۔