آٹا بحران،غریب کا پیٹ،وزیراعظم کی ساکھ داؤ پر؟
ملک بھر میں جاری آٹے کے بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت نے 3 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس گندم کی پہلی کھیپ 15 فروری تک پہنچنے کی توقع ہے جبکہ 31 مارچ تک یہ عمل مکمل کرلیا جائے گا۔ یہ منظوری کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں دی گئی جو پیر کو وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ و محصولات ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں گندم کی قلت پر قابو پانے کے لیے پنجاب اور پاسکو کو اپنے ذخائر میں سے گندم جاری کرنے کی ہدایت بھی کی گئی۔ آٹے اور گندم کی رسد اور قیمت کو قابو میں کرنے کی کوشش کرتی حکومت کو پیر کے ہی روز ایک اور زوردار جھٹکا چینی نے دے دیا۔ چینی کی قیمت میں بھی 4 سے 5 روپے فی کلو اضافہ دیکھا گیا جس کے بعد اس سے بننے والی اشیاء جیسے کیک، بسکٹ وغیرہ کی قیمتیں بھی دکانداروں نے فوری طور پر بڑھادیں۔ اخباری رپورٹس کے مطابق آٹے کی طرح چینی کا بحران بھی مصنوعی ہے کہ گندم اور آٹے کے ذخیرہ اندوزوں کی موج لگتی دیکھ کر شوگر مافیا نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا فیصلہ کیا۔
پاکستان میں جاری اشیاء خوردونوش کے بحران پر عوام حیران ہیں کہ اچانک ایسا کیا ہوگیا کہ آٹا اور چینی بازاروں سے غائب ہونے لگی اور قیمتوں کو جیسے آگ لگ گئی؟ اگر پچھلے ایک برس کی اخباری رپورٹس ہی دیکھ لی جائیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ یہ بحران اچانک پیدا نہیں ہوا، قریباً ایک برس سے یہ لاوا پک رہا تھا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ دو برس گندم کی اضافی پیداوار کے بعد فروری 2019ء میں حکومت نے فیصلہ کیا کہ پانچ لاکھ ٹن گندم برآمد کردی جائے تاکہ قریباً 11 کروڑ ڈالر زر مبادلہ کمایا جاسکے۔ اس کے بعد گندم کی افغانستان برآمد شروع کردی گئی۔ جون 2019ء میں وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی نے 2018-19ء کے سیزن میں گندم کی کم پیداوار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے برآمد پر پابندی عائد کرنے کی تجویز دی۔ ستمبر 2019ء میں یہ پابندی عائد کردی گئی تاہم گندم سمگل ہوکر افغانستان جاتی رہی کہ وہاں پر اس کا مول قریباً دُگنا مل رہا تھا۔ نتیجتاً پاکستان میں گندم کی کمی واضح ہونے لگی اور اکتوبر 2019ء میں خیبرپختونخوا میں 85 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 500 روپے سے بڑھ کر 4500 روپے تک جاپہنچی۔ اس دوران میڈیا میں شور اُٹھنے لگا، حکومت نے حسب روایت اسے مخالفین کا پراپیگنڈہ قرار دیا، رواں ماہ کے آغاز میں کے پی کے حکومت اور محکمہ تحفظ خوراک دونوں نے دوٹوک الفاظ میں گندم کی قلت کی خبروں کو جھوٹ قرار دیا، دوسری جانب ملک بھر میں آٹے کی قیمتوں میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا، یہ بات بڑھی اور یہاں تک پہنچی کہ بازاروں میں آٹا نایاب ہوگیا، دکانوں کے باہر لمبی لمبی قطاریں نظر آنے لگیں، حکومت نے قیمتیں بڑھانے کی اجازت نہ دی تو پشاور کے نان بائی ہڑتال پر چلے گئے (گو کہ ایک ”سیانے“ وزیر صاحب نے یہ مضحکہ خیز مشورہ بھی دیا کہ روٹی کا سائز چھوٹا کرلیں، قیمت نہ بڑھائیں)۔ بالآخر 19 جنوری 2020ء کو حکومت خواب خرگوش سے ہڑبڑا کر اُٹھی، وزیراعظم عمران خان نے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم جاری کردیا۔ ذخیرہ اندوز اس حکومتی کاوش سے اس قدر ”متاثر“ ہوئے کہ آٹے کے بعد اب چینی کے بحران نے بھی جنم لے لیا ہے۔ وزیراعظم کے حکم کے تحت کارروائی کے بجائے ذخیرہ اندوزوں کی حوصلہ افزائی کون کررہا ہے؟ اس سوال کا جواب حکومت کو فوری تلاش کرنا ہو گا۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ کوئی بحران پیدا ہو تو موجودہ حکومت اس کا ذمہ پچھلی حکومتوں پر ڈال کر اس سے بری الذمہ ہو جاتی ہے۔ اس مرتبہ یہ سہولت میسر نہ تھی تو الزام حکومت سندھ پر ڈال دیا گیا کہ وہی ایک صوبہ نظر آیا جہاں اپنی حکومت نہ تھی۔ سوچنے کی بات ہے کہ سندھ میں بحران کی ذمہ دار تو چلو سندھ حکومت ٹھہری لیکن پھر باقی تین صوبوں کے عوام کو آٹا اپنی اصل قیمت پر میسر کیوں نہیں؟
اس پس منظر کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے جیسے یہ بحران بڑی ”محنت“ سے ”پیدا“ کیا گیا ہے۔ قریباً ہر معاملے کی طرح یہاں بھی فیصلہ سازی کا فقدان نظر آتا ہے۔ کبھی گندم کو برآمد کرنے کا فیصلہ تو کبھی درآمد، دیکھنے والے حیران ہیں کہ آخر ماجرا کیا ہے؟ ایک تو پالیسیوں کا کوئی سر پیر نہیں اْوپر سے حکومت کی انتظامی صلاحیت سونے پر سہاگہ، جب گندم کی برآمد روکنے کا فیصلہ کرلیا گیا تو پھر بھی یہ دھڑا دھڑ ملک سے باہر کیسے جاتی رہی؟ اعلیٰ حکومتی سطح پر ملی بھگت کے بغیر یہ ممکن نہیں۔
تحریک انصاف کو حکومت میں آئے قریباً ڈیڑھ برس کا عرصہ گزرگیا ہے اور اس قلیل عرصے میں یہ کم از کم چوتھا بڑا بحران ہے۔ سب سے پہلے تو حکومت کے آتے ہی ڈالر مارکیٹ سے ناپید ہوگیا۔ حکومتی وزراء نے اسے مافیا کی سازش قرار دیا، طرح طرح کے افسافے گھڑے گئے۔ تحقیقات کر کے ذخیرہ اندوزوں کو سزائیں دینے کے دعوے بھی کیے گئے تاہم چند ماہ میں سب بھول گئے کہ ڈالر کبھی 110 روپے کا بھی ملتا تھا۔ ڈالر کے گرنے کی اصل وجوہات کیا تھیں اور اس میں حکومتی پالیسی کا کتنا عمل دخل تھا، یہ ایک طویل بحث ہے جس پر کسی اور وقت تفصیل سے بات ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد دسمبر 2018ء میں اچانک لوگوں کے چولہے ٹھنڈے ہوگئے، کئی دن کی بوکھلاہٹ کے بعد بالآخر معلوم ہوا کہ ذمہ داران طلب کے مطابق ایل این جی آرڈر کرنا ہی بھول گئے۔اس وقت آئل اینڈ گیس کے وفاقی وزیر غلام سرور خان نے ذمہ داری سرکاری گیس کمپنیوں پر ڈال دی کہ انہوں نے حکومت کو سردیوں میں گیس کی طلب کی درست تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ یہ ان اداروں میں موجود ن لیگ کے ہمدردوں کی ”تخریبی“ کارروائی تھی۔ پھر گیس کے بعد ٹماٹروں کی باری آگئی، وہ یکدم نایاب ہوگئے۔ معلوم ہوا بھارت سے تجارت تو بند کردی گئی لیکن جلد بازی میں وہاں سے آنے والی اشیاء کے متبادل کا بندوبست کرنا یاد نہ رہا، رہی سہی کسر ذخیرہ اندوزوں نے پوری کردی۔ اس مرتبہ بھی سخت سے سخت سزا کے دعوے اور وعدے سامنے آئے جو ہمیشہ کی طرح چند روز میں ہی ہوا ہوگئے۔ ابھی پاکستانی ٹماٹروں کا غم بھول نہیں پائے تھے کہ آٹے کی تلاش میں دردر کی ٹھوکریں کھانا پڑگئیں۔ حکومت کا جواب اب بھی وہی، پہلے میڈیا کا پروپیگنڈا پھر مخالفین کی سازش، پھر ذخیرہ اندوزوں پر الزام اور پھر سزا کے وعدے، نتیجہ اب تک صفر۔ اب چینی کا تو پوچھئے ہی مت، معلوم ہوتا ہے کہ ہر ماہ بعد چینی کی قیمت دھکے سے چند روپے بڑھا دینا موجودہ حکومت کا ”پسندیدہ مشغلہ“ ہے۔
وزیراعظم عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے حکمرانوں کو مافیا قرار دیتے تھے۔ جب اشیاء خوردونوش کی قیمتیں بڑھتیں تو وہ اضافے کو دانستہ قرار دیتے اور کہتے تھے کہ حکومت میں بیٹھے لوگ اس سے براہ راست فائدہ اْٹھاتے ہیں۔ اب موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالے ڈیڑھ برس ہوچکا ہے سوال پیدا ہوتا ہے کہ آئے دن جو بحران پیدا ہورہے ہیں، اشیاء خوردونوش کی بار بار جو قلت پیدا کی جاتی ہے، اب اس سے کون فیض یاب ہورہا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ ان ذخیرہ اندوزوں کے خلاف حکومتی مشینری مفلوج نظر آتی ہے؟ ہر چند ماہ بعد کوئی بحران سر اُٹھاتا ہے اور ایک مخصوص طبقے کی جیبیں گرم کر کے گزرجاتا ہے۔ عوام دہائیاں دیتے رہ جاتے ہیں، حکومت وعدوں سے اُن کا پیٹ بھرتی ہے، سزا کسی کو نہیں ملتی، اتنے عرصے میں ایک اور بحران تیار کھڑا ہوتا ہے۔ پاکستان گڈ گورننس کے لیے کبھی بھی معروف نہیں رہا لیکن اس انتہا کی بدانتظامی بھی آج تک کبھی نہیں دیکھی گئی۔ کیا وجہ ہے کہ بنیادی ضرورتوں کی اشیاء پر آج بھی کوئی مربوط پالیسی نظر نہیں آ رہی؟ان تمام سوالات کے جواب حکومت کے اندر،وزیراعظم کے آس پاس موجود ہیں، اشیاء کی قلت سے حکومتی ذمہ دار مالی فائدہ نہیں اُٹھا رہے تو تب بھی یہ شدید نااہلی کا مظاہرہ ضرور ہے۔ جب تک ذمہ داروں کی گرفت نہیں کی جائے گی، یہ حکومت آگے چل نہ پائے گی، اسی طرح ہنگاموں میں ہی وقت ضائع ہوتا رہے گا۔ دیکھنا ہے کہ کیا اس مرتبہ ذمہ داروں کو سزا دینے میں سنجیدگی دکھائی جائے گی یا ایک مرتبہ پھر بس آنکھیں چُرا لی جائیں گی؟اس مرتبہ پاکستانیوں کا پیٹ اور وزیراعظم عمران خان کی ساکھ، دونوں داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔