وزیراعظم کی مشیر اطلاعات کے حق میں ایک کالم

وزیراعظم کی مشیر اطلاعات کے حق میں ایک کالم
وزیراعظم کی مشیر اطلاعات کے حق میں ایک کالم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آفتاب اقبال ریڈیو پاکستان کے سینئر اور کہنہ مشق براڈ کا سٹر ہیں۔انہوں نے ریڈیو علم و فن سے متعلق بیرون ملک سے بھی تربیت حاصل کر رکھی ہے۔لکھنے پڑھنے کے ساتھ ساتھ سیکھنے اور سیکھتے رہنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ کام کو فرض ہی نہیں، ایمان سمجھ کر کرتے ہیں۔ حرف و لفظ کے ساتھ ساتھ مائیک کی اہمیت سے کما حقہ آگاہ ہیں۔انہیں سرکار کی ضروریات کے ساتھ ساتھ قومی تقاضوں کے بارے میں بھی پتہ رہتا ہے،اِس لئے بڑی ذہانت اور توازن کے ساتھ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو نبھاتے ہیں۔ریڈیو کے مہمانوں کی تکریم کا بھی خیال رکھتے ہیں اور ان کی مہمانداری میں کسی قسم کی کسر نہیں اُٹھا رکھتے۔ سرکاری وسائل کی کمی کو بھی اپنے کام کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیتے۔ آج کل ریڈیو پاکستان لاہور میں پروگرام منیجر کے طور پر تعینات ہیں۔اعلیٰ پائے کے براڈ کا سٹر، ڈرامہ نویس اور منتظم ہیں آواز اور الفاظ کی قدرو قیمت اور مائیک کی اہمیت و حساسیت سے پور ی طرح آگاہ ہیں۔

ریڈیو کی قومی اہمیت کے بارے میں پُر زور گفتگو کرتے ہیں۔ریڈیو فنکاروں کی فلاح کے بارے میں سوچ بچار بھی کرتے رہتے ہیں اور ان کے مسائل کے حل کے لئے دامے، درمے، سخنے مصروف عمل بھی رہتے ہیں۔یہ سب باتیں اور ان کی خصوصیات اپنی جگہ درست اور اہم ہیں، لیکن ان کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ وہ ہمارے دیر ینہ دوست اور خیر خواہ ہیں۔انہوں نے ہمیں ”آواز کی دُنیا“ سے نہ صرف آشنا کیا،بلکہ اس کے نشیب و فراز سے آگہی بھی دی۔ہماری انگلی پکڑ کر اس دُنیا کے روشن و تاریک پہلوؤں سے با خبر کیا۔ ہمیں مائیک سے نہ صرف متعارف کرایا،بلکہ اس کے ساتھ دوستی کے گُر بھی سکھائے،الحمد للہ آج ہم نہ صرف مائیک سے بات چیت کرتے ہیں، بلکہ کی بورڈ کے ساتھ کھیل بھی لیتے ہیں، اس کارکردگی کا سارا کریڈٹ ہمارے دوست آفتاب اقبال کو جاتا ہے۔


گزشتہ روز ریڈیو پاکستان کے پروگرام ”سوہنی دھرتی“ میں پاکستان کے مایہ ناز براڈ کاسٹر، اداکار، فنکار اور تخلیق کار خالد عباس ڈار کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا۔ریڈیو پاکستان لاہور کے ایک کارکن بٹ صاحب کہنے لگے کہ آج نیشنل پریس میں ڈار صاحب کی تصویر محترمہ فردوس عاشق اعوان کے ساتھ چھپی ہے۔ڈار صاحب نے بتایا کہ جی ہاں وہ،یعنی مشیر اطلاعات سندس فاؤنڈیشن کے فنکشن میں بطور مہمان خصوصی مدعو تھیں۔ سندس فاؤنڈیشن نے منو بھائی کی یاد میں ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا،جہاں وہ (ڈار صاحب) بھی شریک تھے۔ آفتاب اقبال نے بتایا کہ الیکٹرانک میڈیا کے ایک حصے نے اس فنکشن میں محتر مہ مشیر اطلاعات کے خون کا عطیہ دینے کے حوالے سے ایک منفی خبر چلائی کہ ”مشیر اطلاعات نے سب کو ماموں بنا دیا“ ……یعنی انہوں نے فی الحقیقت خون نہیں دیا، لیکن خبر مع تصویر چلوا دی کہ وہ خون کا عطیہ دے رہی ہیں۔

پھر اس خبر کو بار بار چلایا گیا کہ موصوفہ نے صرف تصویر بنوانے اور جھوٹی شہرت حاصل کرنے کے لئے یہ ڈرامہ رچایا۔ اس طرح یہ تاثر پیدا ہوا کہ ہمارے وزراء جھوٹ بولتے ہیں۔ موجودہ حکومت کی کارکردگی کے بارے میں پہلے ہی تاثر کچھ بہت زیادہ اچھا نہیں ہے، مہنگائی تیزی سے بڑھ رہی ہے، غربت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، ٹیکسوں کی بھرمار ہے، لیکن ٹیکس وصولیوں کے اہداف پورے ہوتے نظر نہیں آرہے۔اس پر مستزاد وزراء کی بیان بازیاں،جو حکومت کی عوامی پذیرائی میں کمی کا باعث بن رہی ہیں۔ حکومتی ترجمان بالعموم اور اطلاعات کے مرکزی و صوبائی وزراء بالخصوص ایک ہی طریقے سے حکومتی کارکردگی کے بارے میں مثبت تاثر پیدا کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ عامۃالناس ان کی باتوں پر بہت زیادہ توجہ نہیں دیتے، جبکہ اپوزیشن ان کے خلاف منفی باتیں کرتی رہتی ہے اور سرکاری بیانات کو جھوٹا قرار دیتی ہے۔


اس پس منظر میں محترمہ فردوس عاشق اعوان کے سندس فاؤنڈیشن میں خون عطیہ کرنے کی خبر کو جھوٹا قرار دینا انتہائی سنجیدہ معاملہ تھا……ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے، ڈار صاحب سے پوچھا کہ کیا الیکٹرانک میڈیا کے ایک حصے میں نشر کی جانے والی خبر درست ہے کہ مشیر اطلاعات نے خون عطیہ نہیں کیا،بلکہ سب کو ماموں بنایا؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ انہوں نے خون نہیں دیا اور تصویر بنوائی، لیکن یہ بات درست نہیں ہے کہ انہوں نے سب کو ماموں بنایا۔ ہم نے حیرانی سے پوچھا، جناب ڈار صاحب جب خون عطیہ نہیں کیا، لیکن تصویر خون دیتے ہوئے بنوائی تو کیا ایسا کرنا ماموں بنانا نہیں ہے؟انہوں نے ایک حیران کن انکشاف کیا کہ مشیر صاحبہ تو خون دینے کے لئے تیار تھیں، لیکن ان کی قمیض کا بازو اوپر نہیں ہو رہا تھا،بہت کوشش کے باوجود وہ اپنے بازو کو سرنج کی سوئی لگانے کے لئے تیار نہ کر پائیں تو انہوں نے میڈیا کے لوگوں سے،

جو کلک کے لئے تیار تھے، کہا کہ آپ سب ہمارے کرم فرما ہیں، دیکھ رہے ہیں تو پھر ویسے ہی تصویر بنا لیں۔اس طرح انہوں نے میڈیاکی آسانی کے لئے خون دیتے ہوئے تصویر بنوائی، حالانکہ وہ خون نہیں دے رہی تھیں۔ یہ بات سب صحافیوں کے سامنے ہوئی،فردوس عاشق اعوان صاحبہ نے میڈیا کی سہولت کے لئے ایسا کیا۔ انہوں نے کسی کے ساتھ جھوٹ نہیں بولا، نہ کسی کو ماموں بنایا“……ڈاکٹر صاحبہ کو تھوڑا بہت ہم بھی جانتے ہیں، آپ سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک متحرک فعال اور زیرک سوشل ورکر بھی رہی ہیں، ہم انہیں اس وقت سے جانتے ہیں، جب وہ”شیڈ“ نامی ایک فعال سماجی تنظیم چلاتی تھیں عوام کو صحت کے معاملات سے با خبر رکھنے، ان کی رہنمائی کرنے کے حوالے سے ان کی اس تنظیم کی سرگرمیاں بہت نمایاں تھیں۔


اسلام آباد میں ہماری پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کے ہیڈ کواٹرز میں تعیناتی کے دوران بھی ہمارا ان کے ساتھ رابطہ قائم رہا۔ وہ ہمارے چیئرمین جنرل شہزادہ عالم ملک سے ملنے کے لئے تشریف لاتیں تو ہم سے بھی ملاقات کرتیں۔ ہم ان کی فعالیت اور متحرک ہونے کے حوالے سے ان کے مداحوں میں شامل ہیں۔اب وہ قومی سطح پر فعال اور متحرک کردار ادا کر رہی ہیں۔وہ اپنے عوامی رابطوں اور کمیونی کیشن کی بھرپور صلاحیتوں کے حوالے سے بھی اپناآپ منوا چکی ہیں۔ تحریک انصاف کی عوامی اور صحافتی سطح پر نمائندگی،بلکہ بھرپور نمائندگی کے حوالے سے بھی ید طولیٰ رکھتی ہیں۔وہ اپنا منصب پیشہ ورانہ انداز میں بخوبی نبھا رہی ہیں۔ وہ پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا میکنیزم کو بھی سمجھتی ہیں اور اس سے وابستہ افراد کی صلاحیتوں سے بھی آگاہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ بڑی ہنر مندی اور چابک دستی سے حکومتی ترجمانی کا فریضہ سر انجام دے رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کے ترجمانوں اور وزراء میں شاید ان کے میڈیا کے ساتھ سب سے بہتر تعلقات ہیں،اِس لئے ہمیں خالد عباس ڈار صاحب کی بات پر یقین تھا۔

ویسے بھی خالد عباس ڈار صاحب ایک با وقار، معتبر اور ثقہ راوی ہیں اور وہ اس و اقعہ کے خود شاہد بھی تھے، اِس لئے ان کی بات سن کر ہمیں اندازہ ہو ا کہ ہمارے کچھ صحافتی حلقے اپنی ریٹنگ بڑھانے اور سنسنی پھیلانے کے لئے صحافتی ضوابط اور اخلاقیات کی پرواہ نہیں کرتے۔ ہمارے کچھ صحافی بھائی وزراء کے ساتھ اپنے ذاتی معاملات کے حوالے سے بھی حدود پھلانگ جاتے ہیں۔ ہمیں فردوس عاشق اعوان صاحبہ کے ساتھ اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن ذاتی پسند، ناپسند کی بنیاد پر رپورٹنگ کرنا، عوام کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے،جس سے ہمیں صرف اجتناب ہی نہیں کرنا چاہئے،بلکہ ایسے رجحانات کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے۔ خالد عباس ڈارصاحب نے ایک اور حیران کن بات کہی کہ ”وہ عاشق فردوس اعوان صاحبہ کو ایک عرصے سے جانتے ہیں، وہ سندس فاؤنڈیشن کے کاز کے ساتھ طویل عرصے سے وابستہ ہیں، درجنوں مرتبہ خون کا عطیہ دے چکی ہیں اور لاہور کے بعد اسلام آباد میں ہونے والے سندس فاؤنڈیشن کے پروگرام میں بھی شریک ہوں گی اور وہاں بھی اپنا خون عطیہ کریں گی۔ جزا ک اللہ خیر

مزید :

رائے -کالم -