بھارت کا مستقبل؟
مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کے مظالم کے حوالے سے مسلسل خبریں آ رہی ہیں۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے مستقل کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ وہاں انسانی المیے جنم لے رہے ہیں۔ دنیا بھر میں اس کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ نریندر مودی نے مسلمانوں کی شہریت کے متعلق ایک امتیازی قانون منظور کیا ہے، جس کے ردعمل میں پورے بھارت میں احتجاج ہو رہا ہے۔ گاندھی اور نہرو جس سیکولر انڈیا کی بات کرتے تھے اور بھارتی آئین میں جس سیکولرازم پر فخر کا اظہار ہوتا تھا، وہ اب قصہء پارینہ بنتے نظر آ رہے ہیں۔ ان حالات میں بھارتی سکھ مصنف خشونت سنگھ بہت یاد آ رہے ہیں۔
انہوں نے گجرات کے فسادات کے بعد "The End of India" کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی۔ اس میں انہوں نے بھارت کے مستقبل کے متعلق سخت ناامیدی کا اظہار کیا تھا۔ انہیں بھارت ماتا کے ٹکڑے ہوتے ہوئے نظر آ رہے تھے…… 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد بہت سے دانشوروں کا خیال تھا کہ اس سے ہندو مسلم اختلافات کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل ہو جائے گا، مگر کانگریس نے تقسیم ہند کے منصوبے کو اس امید کے ساتھ قبول کیا تھا کہ پاکستان دوبارہ بھارت کا حصہ بن جائے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ بھارت نے اس کے لئے بھرپور کوششیں بھی کیں۔ پاکستان کو اس کے جائز اثاثے دینے سے انکار کر دیا گیا۔ فسادات میں اعلیٰ ہندو قیادت کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت سامنے آ چکے ہیں۔
یہ بھارتی سازشیں ہی تھیں جن کی وجہ سے بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا۔ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ”را“ اب ان سازشوں پر باقاعدہ فخر کا اظہار کرتی ہے۔ ایسی بے شمار کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح یونیورسٹیوں میں علیحدگی کے جراثیم پھیلائے گئے؟ کس طرح مکتی باہنی کے لوگوں کو ٹریننگ دی گئی اور کس طرح عالمی طاقتوں نے بنگلہ دیش کے قیام میں کردار ادا کیا؟
بھارت نے بنگلہ دیش بنا کر درحقیقت تقسیم ہند کے معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی۔ اس نے ایک نیا راستہ دکھایا تھا کہ برصغیر میں تیسرا ملک بھی ہو سکتا ہے…… اگر تیسرا ملک ہو سکتا ہے تو پھر چوتھا ملک بھی ہو سکتا ہے۔
بنگلہ دیش کے قیام پر اس وقت چین کے دانشور وزیراعظم چواین لائی نے کہا تھا کہ بھارت نے آندھیوں کی فصل بوئی ہے، یہ فصل اسے خود کاٹنی پڑے گی۔ اندرا گاندھی نے کہا کہ اس نے مسلمانوں سے ان کی ہزار سالہ حکمرانی کا بدلہ لے لیا ہے۔ آج بھارت میں ان کے یہ الفاظ دہرائے جاتے ہیں کہ اندراگاندھی نے کہا تھا کہ دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق ہو گیا ہے۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش ضرور بنا، مگر بھارت کا حصہ نہیں بنا۔ یہ اندرا گاندھی کا غالباً سب سے دانشمندانہ فیصلہ تھا،اگر اندراگاندھی بنگلہ دیش کو بھارت کا حصہ بنا لیتی تو مشرقی بنگال اور مغربی بنگال بھارت کی سالمیت کے لئے بڑا خطرہ بن جاتے۔
بنگلہ دیش کے متعلق ذوالفقار علی بھٹو کے یہ الفاظ تاریخ نے درست ثابت کئے ہیں کہ مسلم بنگال ہمیشہ مسلم بنگال ہی رہے گا…… تقسیم ہند سے قبل مسلمان اکابرین اس خدشے کا اظہار کرتے تھے کہ جمہوریت میں 51 فیصد کا مطلب 100فیصد ہوتا ہے اور بھارت میں جمہوریت بدترین فاشزم کی صورت میں نظر آئے گی۔ مودی کی حکومت میں یہ خدشات درست ثابت ہوئے ہیں۔ مودی نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات کو ہوا دے کر گجرات کی وزارت اعلیٰ حاصل کی، اس کے بعد وزارت عظمیٰ کے لئے بھی اس نے یہی ہتھکنڈا استعمال کیا۔ اترپردیش کے گزشتہ انتخابات میں اس نے کسی مسلمان کو اپنی پارٹی کا ٹکٹ نہیں دیا۔
مودی نے بھارتی سیاست سے مسلمانوں کو منفی کرنے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔اس نے مسلمانوں کے بغیر اقتدار حاصل کیا ہے، بلکہ اس کی انتخابی کامیابی میں مسلم مخالف جذبات نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ مودی نے بھارتی قوم کو یہ امید دکھائی تھی کہ اگر وہ ہندو حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا تو ملک ترقی کرے گا۔
گجرات میں مودی نے جو اقتصادی کامیابیاں حاصل کی تھیں،ان کی بنا پر بھی بہت سے لوگوں نے یہ امید وابستہ کی تھی کہ اس کی قیادت میں بھارت غیر معمولی ترقی کرے گا، مگر بھارت کو سنگین اقتصادی مسائل کا سامنا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف جو مہم جاری ہے، اس میں سپریم کورٹ نے بھی حصہ ڈالا ہے۔ بابری مسجد اور رام مند کے تنازع پر جس فیصلے کا اعلان کیاگیا، اس کے مطابق متنازعہ اراضی ہندو فریق کو دی جانی چاہیے، جبکہ مسلمانوں کو مسجد کے لئے ایودھیا میں پانچ ایکڑ زمین دے دی جائے، یوں بھارت میں رام مندر کی تعمیر کا راستہ ہموار کرلیاگیاہے۔بھارت میں مسلمانوں کے خلاف مسلسل فیصلے ہورہے ہیں۔اس سے بھارت کی داخلی سلامتی کے مسائل پیدا ہوں گے۔
کسی نہ کسی انداز میں پورا بھارت سراپا احتجاج ہے، مگر بی جے پی کی حکومت ہند وقوم کے ایجنڈے پر پوری طرح عملدرآمد کرنے کے لئے سرگرم ہے۔ بی جے پی کا خیال ہے کہ وہ بھارت کے مسلمانوں کے خلاف اقدامات کرکے عوامی ہمدردیاں حاصل کرسکتی ہے۔مودی نے عملی طورپر یہ ثابت کردیاہے کہ اسے مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت نہیں ہے۔مودی کی کامیابی کا راز مسلمانوں کے خلاف مسلسل فضا قائم رکھنے میں ہے۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے، شہریت بل کی منظوری او ررام مندر کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی بھارتی حکومت مسلمانوں کے خلاف اپنے ایجنڈے کو ختم کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہے۔
بھارت کے بہت سے سیاسی تجزیہ کار وں کا خیال ہے کہ نریندر مودی کے اگلے ایجنڈے میں یکساں سول کوڈ سرفہرست ہے۔ بی جے پی کے مطابق یکساں سول کوڈ کامطلب انڈیا کے تمام شہریوں کے لئے ایک ہی جیسے سول یا عائلی قوانین ہیں، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب یا فرقے سے ہو۔ یکساں سول کوڈ میں شادی اور جائیداد کی تقسیم جیسے معاملات پر تمام مذاہب کے لئے ایک ہی قانون کا اطلاق ہوگا۔
صحافی پردیپ سنگھ کا خیال ہے کہ اس پر عمل درآمد اتنا آسان بھی نہیں ہوگا۔ و ہ وضاحت کرتے ہیں: ”اس بل کے بنانے میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوگا کہ شادی اور جائیداد جیسے معاملات میں مختلف مذاہب کے اپنے آئین ہیں۔ ان قوانین کو یکساں کرنے سے بہت ساری برادریوں کو نقصان ہوسکتا ہے، کچھ کو فائدہ بھی ہوسکتا ہے۔ ایسی صورت حال میں سب کو ایک ہی قانون کی پیروی کے لئے منانا مشکل ہوگا“…… پردیپ سنگھ کا خیال ہے کہ حکومت کے لئے یکساں کوڈ کا نفاذ جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370کے خاتمے سے بھی زیادہ مشکل امر ہوگا۔سینئر صحافی ویراگ اس معاملے کا ایک دوسرے رخ سے بھی جائزہ لیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یکساں سول کوڈ صرف ہندوؤں اور مسلمانوں سے ہی جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔ اگر مسلمانوں میں شادی اور جائیداد کی تقسیم کے مختلف اصول ہیں، تو ہندوؤں میں مختلف برادریوں کے اندر بھی اختلاف ہے۔ مودی حکومت نے اقتدار مسلمانو ں کی مخالفت کے ذریعے حاصل کیاتھا۔اس کا خیال ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف مسلسل اقدامات سے ہی بی جے پی کے اقتدار کو دوام بخش سکتا ہے، مگر جیسے جیسے مسلمانوں کے خلاف اقدامات میں اضافہ ہوتا جائے گا، اسی انداز سے ہندوؤں کے اندرونی اختلافات بھی زیادہ واضح ہوکر سامنے آئیں گے۔
ہندومت، اسلام، عیسائیت یا یہودیت کی طرح مذہب نہیں ہے۔ اس کے بھگوانوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ ایک فرقے کا بھگوان دوسرے فرقے کا ولن ہے۔ شمالی ہندوستان میں رام ہیرو ہے تو جنوبی ہندوستان میں اسے ولن سمجھا جاتا ہے۔ وہاں کا ہیرو راون ہے۔ سیاسی کش مکش میں وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے اضافہ ہو گا،بھارتی معاشرے کے تضادات بھیانک صورت میں منظر عام پر آئیں گے…… اور یہ تضادات بھارت کی سا لمیت کے لئے ہی نہیں، بلکہ اس پورے خطے کے استحکام کے لئے بڑا خطرہ بن سکتے ہیں۔