میانی صاحب کی متنازعہ اراضی پر تدفین سے روک دیا گیا
لاہور(نامہ نگارخصوصی)لاہور ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس محمد امیر بھٹی کی سربراہی میں قائم3رکنی فل بنچ نے قبرستان میانی صاحب کی متنازعہ اراضی پر تدفین اور قبریں بنانے سے روک دیا۔فاضل بنچ نے یہ عبوری حکم پیر فاخر شاہ اور سید شاہد علی سمیت درجنوں شہریوں کی درخواستوں پر جاری کیا۔فاضل بنچ نے قبرستان کمیٹی کویہ ہدایت جاری کرتے ہوئے خبردارکیا کہ اگر متنازعہ اراضی پر کوئی تدفین ہوئی یا قبر بنائی گئی تو ذمہ داران کے خلاف کارروائی ہو گی، درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ میاں صاحب قبرستان کے ساتھ ان کی ملکیتی اراضی ہے جسے قبرستان کا حصہ ظاہر کرکے درخواست گزاروں کو ناجائز قابضین بنا دیاگیاہے،دوران سماعت عدالت نے قبرستانوں کے تحفظ کے 62 سالہ پرانے قانون پر آج تک عملدرآمد نہ ہونے پر حیرانی کا اظہار کیا،درخواست گزاروں کے وکلاء نے موقف اختیار کیا کہ قانون پر عملدرآمد کی بجائے ایک اخباری تراشے کی بنیاد پر شہریوں کی ذاتی اراضی قبضے میں لے لی گئی،1962 ء میں پاکستان ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق لوگوں کی اراضی قبرستان میں شامل کر لی گئی، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا اس پریس نوٹ کی کوئی قانونی حیثیت ہو سکتی؟پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ اخباری خبر کو قانونی حیثیت نہیں دی جا سکتی، عدالت نے کہا کہ کیا لوگوں کی اراضی صرف اس پریس نوٹ کی بنیاد پر قبضے میں لی گئی، کیا پریس نوٹ میں شامل خسران کا میانی صاحب کے نام پر ریونیو ریکارڈ میں اندراج کیا گیا،درخواست گزاروں کے وکلاء نے کہا کہ اس پریس نوٹ کی بنیاد پر لاہورہائی کورٹ کے سنگل بنچ نے شہریوں کی اراضی قبضے میں لینے کے احکامات جاری کئے،عدالت نے قراردیا کہ بادی النظر میں صرف یہ ایک خبر ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نظر نہیں آرہی، قبرستان کی حدود متعین کئے بغیر پریس نوٹ کیسے جاری کیا جا سکتا تھا، وکلاء نے کہا کہ 7 اکتوبر 1958 ء کو مارشل لاء کے نفاذ کے بعد لیفٹیننٹ جنرل بختیار رانا نے یہ پہلا حکم نامہ جاری کیا، عدالت نے کہا لیفٹیننٹ جنرل کا جاری کردہ حکم صرف ہدایت نامہ ہے،عمل صرف قانون پر ہونا تھا،عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج23جنوری پر ملتوی کردی۔
میانی صاحب