اسلامی معاشی نظام میں انسانیت کی فلاح کا راز پوشیدہ ہے،منیر احمد

    اسلامی معاشی نظام میں انسانیت کی فلاح کا راز پوشیدہ ہے،منیر احمد

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


لاہور (جنرل رپورٹر) اسلامی معاشی نظام میں ہی انسانیت کی فلاح و بہبود کا راز پوشیدہ ہے۔ ریاست مدینہ کے معاشی نظام میں لوٹ کھسوٹ اور سود کا خاتمہ کر دیاگیا، اس نظام میں ایماندار تاجر کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔نبی کریمؐؐ نے تجارت میں جھوٹ کا خاتمہ اور اسے ہر طرح کے ٹیکس سے استثنیٰ دیا۔پاکستان میں ریاست مدینہ کا معاشی نظام نافذ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ 2020ء کو ریاست مدینہ کا سال قرار دیا جائے۔ ا ن خیالات کا اظہار ممتاز ماہر معاشیات و سابق چیف منیجر سٹیٹ بینک آف پاکستان محمد منیر احمد نے ایوان قائداعظمؒ، لاہور میں قائم تھنک ٹینک”ایوان قائداعظمؒ فورم“کے آٹھویں ماہانہ اجلاس بعنوان ”ریاست مدینہ کا معاشی نظام“ سے خطاب کے دوران کیا۔ اجلاس کی صدارت تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن اور نظریہئ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد نے کی جبکہ اس موقع پر سماجی وسیاسی رہنما بیگم مہناز رفیع، نظریہئ پاکستان فورم سیالکوٹ کے صدر اسد اعجاز، قیوم نظامی، لیفٹیننٹ کرنل(ر) مقصود مظہر راٹھور، رانا امیر احمد خان، بیگم صفیہ اسحاق، خالد فاروق چودھری، زاہد فرید اللہ، سلمیٰ گل،گلزار محمد چودھری، خالد اللہ خان، سیکرٹری نظریہئ پاکستان ٹرسٹ شاہد رشید سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افرادنے شرکت کی۔

  بڑی تعداد میں موجود تھے۔محمد منیر احمد نے کہا کہ پاکستان کے موجودہ حکمرانوں نے برسراقتدار آنے سے پہلے اور اقتدار کے حصول کے بعد تواتر سے یہ دعوے کیے کہ وہ پاکستان میں ریاست مدینہ کا نظام لانا چاہتے ہیں۔ ہم ریاست مدینہ کے معاشی نظام پر بات کریں گے۔ اس وقت دنیا میں دو بڑے معاشی نظام سرمایہ داری اور اشتراکیت چل رہے ہیں۔

  حالانکہ ایک نظام ان سے بھی اعلیٰ و برتر ہے جو اسلامی معاشی نظام ہے، غیر مسلم مصنفین نے بھی اس موضوع پر قلم آزمائی کی ہے۔ اسلامی معاشی نظام میں انسانیت کی فلاح و بہبود کا راز پوشیدہ ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے ”اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو“۔میرے خیال میں ریاست مدینہ کے نظامِ معیشت کی بنیاداسی اصول پر رکھی گئی تھی۔یہ آیت اپنے مفہوم میں بڑی وسعت رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نبی کریمؐ نے ریاست مدینہ میں ایک مکمل معاشی نظام بھی نافذ کیا۔ ہجرت مدینہ کے بعد نبی کریمؐ نے سب سے پہلے مدینہ منورہ میں ایک مسجد تعمیر فرمائی پھر انصار اور مہاجرین کے درمیان مواخات یعنی بھائی چارہ قائم فرمایا۔مدینہ منورہ میں آباد یہودیوں سے آپؐ نے ایک معاہدہ کیا جسے ”میثاق مدینہ“ کہا جاتا ہے۔ایک معاشرہ کی تشکیل کے بعد آپؐ نے مدینہ منورہ میں ایک خیمے میں مارکیٹ قائم کی۔ اس وقت مدینہ منورہ میں یہودیوں کی چار مارکیٹیں تھیں اور وہ معیشت پر چھائے ہوئے تھے۔ نبی کریمؐ اس معاشرہ میں ایک معاشی انقلاب لے آئے، آپؐ نے تجارت کو ہر طرح کے ٹیکس سے استثنیٰ دیدیا۔ اس سے یہ فائدہ ہوا کہ معاشرہ میں سرمایہ گردش کرنے لگا۔ ان انقلابی اقدامات سے یہودیوں کی مارکیٹ ڈاؤن ہو گئی اور انہوں نے اس خیمے کی رسیاں کاٹ دیں۔بعدازاں آپؐ نے ایک کھلی جگہ پر یہ مارکیٹ قائم کرنے کا حکم دیا۔ ایک دفعہ مدینہ منورہ میں قحط پڑ گیاجس سے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھ گئیں۔تاجر حضرات آپؐ کے پاس تشریف لائے تاکہ آپؐ  قیمتوں کا تعین کردیں۔ آپؐ نے قیمتوں کا تعین کرنے کے بجائے اسے مارکیٹ پر چھوڑ دیا کہ وہاں قیمت کا تعین ہو۔ اسے آج مارکیٹ بیس معیشت Market Base Economyکہتے ہیں جس کا تصور آپؐ نے آج سے ساڑھے چودہ سو برس قبل ہی دیدیا تھا۔ آپؐ نے مارکیٹ سے باہر جا کر خریدوفروخت پر پابندی لگا دی۔ آپؐ نے تجارت میں جھوٹ اور لوٹ کھسوٹ کا خاتمہ کر دیا۔آپؐ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ انبیاء و صالحین کے بعدسچے تاجر کا رتبہ ہے۔ ایک مرتبہ ظہر کی نماز کے بعد آپؐ مارکیٹ تشریف لے گئے۔ ایک تاجر گندم بیچ رہا تھا جب آپؐ نے اس کے ذخیرہئ گندم میں ہاتھ ڈالا تو وہ نیچے سے گیلی تھی۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں۔آپؐ نے ان تمام اقدامات کے بعد سود کو بھی ختم کر دیا۔ انہوں نے کہا پاکستان میں ریاست مدینہ کا معاشی نظام نافذ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ 2020ء کو ریاست مدینہ کا سال قرار دیا  جائے۔ یہاں اسلامی معاشی نظام پر مزید تحقیق کی جائے۔ ریاست مدینہ میں معیشت نقدی کی معیشت تھی اور کسی کاشتکار کا استحصال نہیں کیا جاتا تھا۔ ریاست مدینہ کی طرح یہاں بھی ایماندار تاجر کو شناخت دی جائے، زکوٰۃ کا مکمل نظام نافذ کیا جائے، تاجر سے ڈائیلاگ کیا جائے، سود ختم کر دیا جائے، سکول اور مدرسہ کے درمیان ایک رابطہ پیدا کیا جائے۔ اسد اعجاز نے کہا کہ ریاست مدینہ کے معاشی نظام کا مرکزی نکتہ عام آدمی کی فلاح و بہبود تھا۔آسودہ حال لوگ ایک ایسا ادارہ بنادیں جس ے کمزور لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آ جائیں۔ ہم نے عام آدمی کی معیشت بہتر بنانے کیلئے سیالکوٹ میں ایک تجرباتی بنیادوں پرکمیونٹی بیس پراجیکٹ کا آغاز کیا جسے بیحد پذیرائی مل رہی ہے۔ ہمارا مقصد فوڈ پروڈیوسر کی آمدنی میں اضافہ، مڈل مین کے کردار کو کم کرنا اور نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنا ہے۔ جہد مسلسل سے آپ نا ممکن کو بھی ممکن بنا سکتے ہیں۔ بیگم مہناز رفیع نے کہا کہ ریاست مدینہ میں حکومتی اخراجات میں کہیں فضول خرچی کا کوئی شائبہ بھی نہ تھا۔ عوام کی فلاح وبہبود کا ہر طرح سے خیال رکھا گیا۔ عرب کی معیشت دو ایسی اساسات پر کھڑی تھی، اسلام کے نظامِ فکر میں جن کے لیے کوئی گنجائش نہیں تھی۔ ایک غلامی اور دوسری سود۔ نبی کریمؐ نے ان دونوں سے انسانیت کو نجات عطا فرمائی۔ شاہد رشید نے کہا کہ اللہ کے رسولؐ نے اپنے طرزِ عمل سے دراصل یہ سمجھایا کہ مدینہ کی ریاست حکمت اور بصیرت کے ساتھ قائم ہوتی ہے۔ مدینہ منورہ کی معاشی زندگی کو جس عنصر نے سب سے زیادہ مفلوج کر رکھا تھا وہ یہودی سرمایہ کار اور ساہوکار تھے، جنہوں نے اوس اور خزرج کے محتاج کسانوں کا منظم استحصال کر رکھا تھا۔ وہ ان غریبوں اور محتاجوں کو من مانی شرائط پر قرضہ دیا کرتے تھے۔ سود اور سود کی رقم اصل زر سے بڑھ جاتی تھی۔ ریاست مدینہ کے قیام کے بعد اس بدترین استحصالی دور کا خاتمہ ہوا۔ پروگرام کے آخر میں محمد منیر احمد نے پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد کو اپنی کتاب ”Madina Economics.... The First  Economic System Of The Mankind“ پیش کی۔