انتظار کریں!
عمران خان پاکستان کے لئے وہی کچھ کرسکتا ہے جو اس نے کینسر اسپتال بناکر کیا تھا، خواہ اس کے لئے کوئی بھی طریقہ اختیار کیا ہو۔ تب کینسر کا علاج بہت مہنگا تھا، عمران خان نے پاکستان کے عوام کو ایک راہ دی، چاہے وہ اپنی ماں کو کینسر کے ہاتھوں کھو بیٹھا لیکن آج ہزار ہا پاکستانیوں کی مائیں بچ رہی ہیں، عمران خان نے وہ اسپتال بھیک مانگ کر بنایاتھا۔وہ فلاح عامہ کے لئے کچھ بھی کرسکتا ہے! اس نے ورلڈ کپ بھی جیت کر دیا، اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ وہ نہ ہوتا تو کون لاتا۔ اگر مہنگائی اور بے روزگاری کو ایک طرف رکھ دیں تو آج پاکستان کا معیار پرانے حکمرانوں کے دور کے مقابلے میں بہتر ہے، وہ امریکہ کو بتاتا ہے کہ اپنی زمین کسی کی لڑائی کے لئے نہیں دوں گا، مودی کو للکارتا ہے، اس کا کوئی بزنس انٹرسٹ نہیں ہے، اقوام متحدہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں کرتا ہے،وہ ایک ایماندار شخص ہے۔وہ کرپشن کے پیسے نکلوا کر دم لے گا،چاہے کچھ بھی حالات ہو جائیں۔ چین والوں نے بڑے محنت کی تھی، تب کہیں جا کر سپر پاور بنا۔ پاکستان کو بھی ایسا کرنا پڑے گا۔ ہماری آبادی بائیس کروڑ ہے، ایک دم سے اتنی بڑی آبادی کے حالات بدلنا آسان نہیں ہوتا۔ آج ہر پڑھے لکھے کی دوہری شہریت ہے کیونکہ وہ بلیک میں کاروبار کرتا ہے اور جب اس پر ہاتھ پڑتا ہے تو ملک سے باہر بھاگ جاتا ہے۔ یہ پیسے عوام کے ہیں جن کو عمران خان بچانا چاہتا ہے۔
خان کے ووٹروں سپورٹروں کو خان سے سروکار ہے، وہ جہانگیر ترین کو جانتے ہیں نہ فیصل واڈا کو، وہ صرف اتنا جانتے ہیں کہ عمران خان اپنی کمٹمنٹ میں پکا ہے۔جمائما نے طلاق لی تو عمران خان نے اس کی دولت سے ایک ٹکا بھی لینے سے انکار کردیا۔ اس نے روپے پیسے کو ٹھکرادیا، اس کی ایمانداری وہیں ثابت ہوگئی، اس کو وہاں سب کچھ مل سکتا تھا۔ وہ پیسے کا پجاری نہیں ہے، اس کے ایک عمل سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے۔ وہ خوددار شخص ہے، کسی کی دولت پر نظر نہیں رکھتا ہے۔ ایسا شخص ملنا آج کل کے دور کی بڑی بات ہے۔
عمران خان کے پاس حکومت سازی کا تجربہ نہیں ہے لیکن ایماندار شخص کے لئے یہ کوئی خامی نہیں ہوتی ہے، وہ اپنی ڈگر چلے گا، جو کام درست ہے اس کو سپورٹ کرے گا، اگر دو نمبر لوگ اچھا تجربہ رکھتے ہیں تو اس کا کیا فائدہ، اس سے زیرو تجربے والا بہتر ہے جو یاایماندار ہے۔ بے ایمان شخص پوری نسل کو تباہ کر رہا ہے، اگر اس کو گاڑی چلانا نہیں آتی وہ کچھ وقت تو لے گا لیکن جب آجائے گی تو خوب چلائے گا۔ اس لئے عوام انتظار کریں جب تک کہ عمران خان کو گاڑی چلانا نہیں آتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا، ایک صحابہ کے دل میں آیا کہ اس نے پیٹ پر پتھر باندھا ہوا ہے، اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو انہوں نے پیٹ سے کپڑا اٹھا کر دکھایا جس پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔ عمران خان جب کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کی تنخواہ میں اس کا بھی گزارہ نہیں ہوتا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ بھی عام پاکستانی طرح زندگی گزار رہا ہے، وہ سرکاری مال پر عیاشی نہیں کر رہا ہے، وہ مہنگے سوٹ نہیں پہنتاہے، شلوار قمیض پہنتا ہے حالانکہ اس سے بہتر ڈریسنگ کسے آتی ہوگی۔
ایک کرکٹر زندگی میں جس قدر عوامی پریشر کا سامنا کرتا ہے اس قدر ایک وزیر اعظم بہت کم سامنا کرتا ہے، کرکٹر اس پریشر کو برداشت کرتا ہے جو عوام کا ہوتا ہے، اس لئے عمران خان سیاسی پریشر بھی لے سکتا ہے، وہ نواز شریف اور زرداری کی طرح نہیں ہے کہ مرضی کے لوگ سامنے بٹھوا کر واہ واہ کروایو اور سرکاری مال پر عیش کرو۔ اس نے وزیر اعظم ہاؤس کی گاڑیاں اور بھینسیں فروخت کردیں، وہ عام لوگوں کی طرح رہتا ہے اور عام زندگی بسر کرتا ہے، وہ پاکستان کو بنانا چاہتا ہے مگر یہ پرچہ بہت مشکل ہے، اس کو کیا فوجی کیا سول حکمران کوئی بھی ڈھنگ سے نہیں چلا سکے ہیں، اس کو ایسا دیوانہ فرزانہ ہی چلاسکتا ہے جس کا نام عمران خان ہے، اللہ نے اس سے بڑاکام لینا ہے وگرنہ اس جیسے شخص کا وزیر اعظم بننا ایک عجوبے سے کم نہیں!
پریشان عوام کو چاہئے کہ حلا ل کمائیں، غلط کاریوں سے دوسروں کے نوالے مت چھینیں، برداشت والے کے ساتھ رب ہے، جب قومیں برداشت کا مظاہرہ کرتی ہیں تو اللہ کا فضل بھی ہوتا ہے، رات کے بھی دن بھی ہوتا ہے، آج پاکستان کا ہر بچہ مقروض ہے، عمران خان آنے والی نسلوں کو قرضے کی لعنت سے نجات دلوانا چاہتا ہے، وہ وقت لے گا لیکن ملک کو بحران سے نکال باہر کرے گا۔