پلٹ ترا دھیان کدھر ہے؟
پی ڈی ایم کے ساتھ میڈیا کا ایک حصہ سوتیلی ماں کا جو سلوک کر رہا ہے اس کو دیکھ کر منیر نیازی کا مشہور زمانہ قطعہ یاد آ جاتا ہے کہ
کج انج وی راہواں اوکھیاں سن
کج گل وچ غم دا طوق وی سی
کج شہر دے لوگ وی ظالم سن
کج ساہنوں مرن دا شوق وی سی
میڈیا انڈسٹری بنی تو یار لوگوں کی خوشی دیدنی تھی کہ چلو کارکن صحافیوں کی بھی کوئی عزت ہوگی، وہ بھی ڈھنگ سے بچوں کے لئے روزی روٹی کما سکیں گے اور ان کے پاس بھی ایک سے بڑھ کر ایک آپشن ہوگا مگر الیکٹرانک میڈیا کی وسعت کے پانچ دس برسوں ہی میں علم ہو گیا کہ یہ سب محض ایک خواب تھا اور تب تک کسی بھی ادارے میں چانس نہیں بنتا جب تک کہ آپ اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے نرم گوشہ نہ رکھتے ہوں۔جب تک مرحوم مجید نظامی موجود تھے تب تک صحافت کی آبرو تھی مگر ان کے بعد تو سب کچھ ملیا میٹ ہوگیا اور اسٹیبلشمنٹ کے سامنے میڈیا چاروں شانے چت ہوگیا۔ وگرنہ ایک زمانہ تھا جب کہا جاتا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ اپوزیشن کی ہوتی ہے اور میڈیا بھی حکومت کو ٹکٹکی پر لگائے ہوتا ہے مگر اب تو میڈیا اس کا ہوتا ہے جس کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کھڑی ہوتی ہے اور طاقت کے یہ دو محور مل کر ایک ایسے پراپیگنڈے کو جنم دیتے ہیں جس سے سادہ لوح عوام کی ایک بڑی تعداد گمراہ ہو کر اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ مئی 2018کے عام انتخابات اس امر کی ایک واضح مثال ہیں۔تاہم عوا می گمراہی محض 2018ء کے عام انتخابات سے ہی نتھی نہیں کی جا سکتی، کیونکہ 2013ء کے عام انتخا بات کے بعد آصف زرداری اور عمران خان دونوں ہی نوحہ کناں نظر آتے تھے۔ کوئی ان انتخابات کو آراوز کا اور الیکشن قرار دیتا تھا تو کوئی کسی اور کا!
جنرل مشرف کے زمانے میں متحدہ مجلس عمل یعنی ایم ایم اے بنی تو انٹرنیشنل میڈیا نے ایم ایم اے کو ملا ملٹری الائنس سے تعبیر کیا، آج اگر یہ کہا جائے کہ ملا ملٹری الائنس کی جگہ میڈیا ملٹری الائنس بن چکا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ تاہم یہ بات واضح رہے کہ ملٹری سے ہماری مراد قطعی طور پر پوری پاک فوج نہیں ہے بلکہ وہ چند حلقے ہیں جو اقتدار کو جاگیر سمجھ کر اسے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور کسی ایک یا دوسرے بہانے چاروں اور سے آدھمکتے ہیں۔ ایک ٹی وی پروگرام میں ہم سے پوچھا گیا کہ جس طرح سے پی ڈی ایم پاک فوج کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے کیا اس سے پاک فوج کا مورال ڈاؤن نہیں ہوتا تو ہم نے عرض کی کہ پاک فوج کون سا موم کی بنی ہوئی ہے کہ ذرا سی تنقید کی تپش اسے پگھلا دے گی اور سرحد وں پر تعینات میرا فوجی بھائی میڈیا پر پی ڈی ایم قیادت پر نظر رکھنے کی بجائے دشمن کی آنکھ پر نظر جما کر بیٹھتا ہے، اسے اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ ملک میں سیاستدان کیا کررہے ہیں اور کیا کہہ رہے ہیں، اسی لئے تو فوج کو ایک ڈسپلنڈ ادارہ کہا جاتا ہے اور جہاں تک پاک فوج کے ملک کے سیاسی معاملات میں مداخلت کا تعلق ہے تو اس کا جواب جنرل مشرف نے بھارت کے اندر ایک بھارتی صحافی کو دیا تھا کہ پاکستان کے مخصوص جغرافیائی حالات کے تناظر میں پاک فوج کو دخل درمعقولات کرنا پڑتا ہے لیکن واضح رہے کہ پاکستان نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے بھارت سے نہیں پوچھا کہ ان کے ہاں گجرات میں کیا ہوا۔تاہم جیسا کہ بھٹو نے اپنی کتاب اگر مجھے قتل کیا گیا میں کہا تھا کہ پاکستان میں چوتھا مارشل لاء نہیں لگے گا تو ایک عمومی اتفاق رائے یہ پایاجاتا ہے کہ اب ملٹری کے پاس براہ راست اقتدار میں آنے کا آپشن محدود ہوتا جا رہا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں صحیح جمہوریت جنم لے گی اور عوام کے بنیادی حقوق کی پاسداری یقینی ہوگی۔
خیر بات ہو رہی تھی میڈیا ملٹری الائنس کی تو اس کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ امریکہ میں بھی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی پوری مدت کے دوران میڈیا سے گلہ رہا اور وہ میڈیا پر چلنے والی خبروں کو Fake Newsاور نہ جانے کیا کیا کہتے رہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ یہ سب کچھ ہوا میں نہیں کہہ رہے تھے بلکہ ان کے پیچھے ایک کارگر عوامی قوت موجود تھی،جو امریکہ کو امریکیوں کے لئے مختص دیکھنا چاہتی تھی اور جس عوامی قوت نے کیپیٹل ہل پر چڑھائی بھی کردی تھی۔
چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ میڈیا نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مصنوعی تبدیلیوں کو یقینی بنانے میں ممدومعاون بنا ہوا ہے جو ایک قابل افسوس امر ہے۔ میڈیا کے اس سازشی کردار کا سب سے بڑا نقصان عام آدمی کو ہورہا ہے جس کا ریاست کے ساتھ ایک عمرانی معاہدہ ہوتا ہے کہ ریاست اس کے بنیادی حقوق کی پاسداری کرے گی اور ان حقوق کے استعمال کی پوری آزادی دے گی۔ افسوس اس بات کا ہے کہ دنیا بھر میں جگہ جگہ عوام کے ان بنیادی حقوق کا استحصال کیا جا رہا ہے اور میڈیا عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے ریاستوں کے ساتھ کھڑا نظر آرہا ہے۔ پراپیگنڈے کی اس طاقت کے غلط استعمال کے سبب دنیا بھر میں عام آدمی کی ترقی رکی ہوئی ہے اور صرف وہی لوگ راتوں رات امیر بنتے جا رہے ہیں جو طاقت وروں کے کھیل کا حصہ بن جاتے ہیں وگرنہ تو ہمارے ہاں اکثر میڈیا مالکان ایف بی آر کے ایک نوٹس کی مار ہیں، وہ صحافتی آزادی کے ہجوں سے بھی واقف نہیں ہیں۔ان سے اسٹیبلشمنٹ کو للکارنے کی توقع عبث ہے۔