سٹاک ہوم (ڈیلی پاکستان آن لائن )سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ تتلیاں اپنے پروں کو گولائی دے کر ایک خاص زاویے سے تالی بجانے کے انداز سے آپس میں ٹکراتی ہیں جس سے ہوا پر دباؤ پڑتا ہے اور اس کے ردعمل میں یہ نرم و نازک کیڑا اڑتا رہتا ہے۔
واضح رہے کہ کئی سالوں سے سائنس دان اس بات کا سراغ لگانے میں مصروف تھے کہ تتلی جیسا نرم و نازک کیڑاکیسے آڑتا ہے؟مختلف ممالک میں اس حوالےسے تحقیق جاری تھی۔دنیا نیوز کے مطابق رائل سوسائٹی انٹرفیس نامی جریدے میں یہ تحقیق شائع ہوئی ہے۔جانداروں کی اڑنے والی انواع نے موت سے بچنے کے مختلف طریقے بنائے ہیں، بعض کے پر بڑے اور طاقتور ہوتے ہیں جن کی مدد سے وہ تیزی سے خطرے سے دور نکل جاتے ہیں۔
تتلیوں کے نازک بدنوں کی مشکل یہ ہے کہ ان کے پر بقیہ جسم کے مقابلے میں غیر معمولی طور پر بڑے ہوتے ہیں جو پرواز کے قوانین کے اعتبار سے اڑنے کے اہل نہیں ہیں۔1970 کی دہائی میں محققین نے نظریہ پیش کیا تھا کہ تتلی کے بڑے پر جب اوپر کی جانب آپس میں ٹکراتے ہیں تو تتلی کو اڑنے میں مدد ملتی ہے مگر قدرتی ماحول میں اڑان کے دوران کوئی بھی سائنسدان اس کا عملی مظاہرہ نہیں کروا سکا تھا۔
اب سویڈن کے سائنسدانوں نےہوائی سرنگ اور ہائی سپیڈ کیمروں کی مدد سے تتلی کے اس مخصوص طرزِ اڑان کی عکس بندی کی ہے۔ سویڈن میں رپورٹ کے شریک مصنف ڈاکٹر پر ہینِنگسن کا کہنا ہے کہ ’پر ایک نہایت دلچسپ انداز میں حرکت کرتے ہیں۔ پروں کے اگلے اور پچھلے حصے مرکزی حصے سے پہلے آپس میں ملتے ہیں جس سے ایک گولائی یا پیالہ نما شکل وجود میں آتی ہے، اس طرز عمل سے پروں کے درمیان ہوا قید ہو جاتی ہے اور جب پر مکمل طور پر ملتے ہیں تو یہ ہوا تیزی سے خارج ہو کر تتلی کو آگے دھکیلتی ہے۔