ہماری معیشت، سیاست اور امن عامہ
سورۃ القریش، قرآن کریم کے تیسویں پارے کی چھوٹی سورتوں میں انتہائی اہم پیغام لئے ہوئے ہے اس سورۃ میں اللہ رب العزت نے مستحکم معاشرے کے دو اہم ستونوں کا ذکر کیا ہے۔اللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے……”اے نبیؐ ان سے(قریش سے) کہہ دیجئے…… اس کعبہ کے رب کی اطاعت/عبادت کریں جس نے انہیں بھوک میں رزق عطا کیا اور خوف سے امان بخشی۔
ذرا اتنی مختصر مگر جامع سورۃ میں پیغام ملاحظہ ہو، کہا جا رہا ہے کہ ربِ کعبہ کی اطاعت/پیروی کریں،یعنی حکم دیا جا رہا ہے اور پھر احسان بھی جتایا جا رہا ہے کہ یہ اطاعت کا حکم یونہی خالی خولی نہیں،بلکہ دو وجوہات کی بناء پر ہے،یعنی اللہ نے تمہیں معاشی خوشحالی اور امن و امان کی دولت و نعمت سے نوازا ہے،اس لئے شکرانے کے طور پر تم پر فرض ہے۔ تم پر لازم ہے کہ ربِ کعبہ کی اطاعت کرو۔ ایک اور جگہ پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ایک اور نعمت و احسان کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے ”…… تم تباہی و بربادی کے گڑھے کے کنارے تک پہنچے ہوئے تھے کہ ربِ کعبہ نے تمہیں اس میں گرنے سے بچایا تم آپس میں پھٹے ہوئے تھے(آپس میں لڑ جھگڑ رہے تھے) اللہ نے تمہارے درمیان محبت اور موافقت پیدا کی……“
یعنی آپس کی لڑائی مار کٹائی، دشمن کے مقابلے میں اللہ رب العزت نے تمہارے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کیا۔ گویا اجتمائی و انفرادی نظم و ریاست و شہریت میں تین اہم نقاط کا ہونا ضروری ہے، نظری وفکری سطح پر اتحاد و اتفاق، معاشی فلاح و استحکام اور لاء اینڈ آرڈر کا راج۔ انہی تین ستونوں پر ریاست کا تصور قائم ہوتا ہے، یعنی ریاست کا کام اتحاد پیدا کرنا، معاشی خوشحالی کو یقینی بنانا اور امن و امان کو عزم بالجزم کے ساتھ قائم کرنا ہی فلاحی معاشرے کی علامت ہیں۔یہ باتیں آج سے1500 برس قبل اللہ رب العزت نے اپنے پیارے نبیئ برحق محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے انسانوں کو بتائیں اور یہی باتیں تہذیب و تمدن کے ارتقاء کے دوران سماجی سائنس دانوں نے بھی اخذ کی ہیں۔
آج سورۃ القریش کا حوالہ دینے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ قارئین کو جاری ملکی صورت حال کا حقیقی جائزہ لینے اور نتیجہ اخذ کرنے میں آسانی ہو۔اس وقت عوام مکمل طور پر کنفیوز اور مایوس نظر آ رہے ہیں۔ حکمران اور ان کے ترجمانوں کی فوج ظفر موج ہر ٹی وی چینل،اخبارات اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر چار سو ہریالی اور خوشحالی کی خبریں بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہے۔معاشی ترقی کی بارش ہو رہی ہے، چھ ہزار ارب روپے کے ٹیکس جمع کرنے کے ٹارگٹ کے حصول کو حکومت اپنی کامیابی کی دلیل کے طور پر پیش کر رہی ہے،خسارے میں کمی کا ذکر بھی ہوتا ہے، برآمدات میں اضافے کی باتیں بھی بڑھا چڑھا کر پیش کی جا رہی ہیں اگر ان کی ایسی باتوں پر دھیان دیا جائے تو لگتا ہے کہ ہر طرف ہریالی ہے اور شیر بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پی رہے ہیں اور راوی سب چین لکھتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ حکومت اور اس کے اتحادی کچھ سروے رپورٹوں کا بھی ذکر کرتے پائے جاتے ہیں، جن میں سائیں بزدار کی کارکردگی کو دیگر وزرائے اعلیٰ کے مقابلے میں بہترین بتایا جاتا ہے۔ ان سروے رپورٹوں میں عوامی رائے کا اظہار کیا جاتا ہے، جس کے مطابق عوام کی اکثریت کارکردگی سے خوش ہے،لیکن دوسری طرف اگر اپوزیشن کی سنیں تو ایسا لگتا ہے کہ معاملات بالکل الٹ ہیں۔
مہنگائی کا طوفان نہیں سونامی ہے جو ایک عرصے سے جاری ہے،اشیائے صرف اور خدمات کی قیمتیں مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔قدرِ زر میں گراوٹ نے مہنگائی کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ دال، گھی، آٹا، سبزی، نمک،مرچ، مصالحہ، چائے کی پتی، غرض ہر وہ شے جو ہر گھر میں استعمال ہوتی ہے مہنگی ہوتی چلی جا رہی ہے۔یہ اضافہ اور مہنگائی مسلسل اور جاری ہے۔ بجلی،گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی بڑھتی ہی چلی جا رہی ہیں جس کے منفی اثرات نے عوامی معیشت کا بھرکس نکال کر رکھ دیا ہے ویسے تو ایک حد تک مہنگائی معاشی سرگرمیوں کے لیے اچھی ہوتی ہے، کیونکہ اس سے پیداواری عمل کو مہمیز ملتی ہے،لیکن یہاں تو مہنگائی ہی مہنگائی ہو رہی ہے، پیداواری عمل میں اضافہ دیکھنے میں نہیں مل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روزگار کے مواقع بھی پیدا نہیں ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے شخصی آمدنیوں میں کسی قسم کا اضافہ بھی متوقع نہیں ہو رہا۔ایک بات حیران کن سمجھی جا رہی ہے اور حکمران اس کا تذکرہ بھی کرتے ہیں کہ دیکھو چھ ہزار ارب روے ٹیکس وصولیوں کا ہدف پورا ہو رہا ہے تو یہ معاشی کارکردگی کے بغیر کیسے ممکن ہے۔کہنے کی حد تک تو یہ بات شاید درست ہو،لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے نہ صرف ٹیکسوں کی شرح میں بے تحاشہ اضافہ کر دیا ہے،بلکہ کئی ٹیکس رعایتوں کو ختم کر کے نئے ٹیکس بھی لاگو کر دیئے ہیں، جس کے باعث ٹیکس وصولوں میں بغیر کسی نئی اضافی معاشی سرگرمی کے اضافہ نظر آ رہا ہے۔
عمومی صورت حال یہ ہے کہ معاشرے میں عدم اطمینان پھیلا ہوا ہے، سیاست گدلائی ہوئی ہے، حکمران سابقہ حکمران خاندانوں کے لّتے لینے کے علاوہ جھوٹ کی ہانڈی پکا رہے ہیں،ان کی عوامی پذیرائی کا حال تو پنجاب کے کینٹ بورڈوں اور خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج دیکھ کر آسانی سے معلوم ہو جاتا ہے۔حکمران جماعت کی کارکردگی نے عوام کو بری طرح مایوس کر دیا ہے۔ترجمان کچھ بھی کہیں سروے نتائج کچھ بھی ہوں، بلوم برگ اور اکانومسٹ میں کچھ بھی لکھا ہو، برسر زمین صورت حال اچھی نہیں ہے۔
قرآن نے جن تین اعشاریوں کا ذکر کیا ہے ذرا ان کے حوالے سے صورت حال دیکھ لیں۔معیشت، معاشرت اور لاء اینڈ آرڈر۔
معیشت قومی ہو یا شخصی اور عوامی، کیسی ہے،جیسی بھی ہے وہ درست نہیں ہے، بدحال ہے۔ سرکاری معیشت مکمل طور پر قرض دینے والے اداروں کی مکمل گرفت میں ہے وہ ہمیں پالیسیاں بتاتے، لکھواتے، اور عمل درآمد کراتے ہیں انفرادی معیشت تباہ حالی کا شکار ہے اور اس کی بہتری کے دور دور تک کہیں بھی آثار نظر ہی نہیں آ رہے ہیں۔معاشرت یعنی سیاست اور عمومی معاشرتی صورت حال بھی شدید افراتفری اور افتراق و انتشار کا شکار ہے، حکمران، اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے اور بات کرنے کے لئے تیار نہیں ہے، قومی اور عوامی اہمیت کے معاملات پر کسی کی نظر نہیں ہے۔ہمارے ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات بھی اچھے نہیں ہیں حد تو یہ ہے کہ افغانستان جیسا ملک جس کی فلاح و بہبود کے لئے ہم کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار رہتے ہیں، بھی ہم سے ناراض ہے۔ بھارت، ایران اور روس تو دور کی بات ہے چین کے ساتھ تعلقات بھی سردمہری کا شکار ہیں۔سعودی عرب جیسا برادر ملک بھی ہم سے اپنے پیسے وصول کرنے کے لئے ہمارے ساتھ نامناسب لہجہ اختیار کر چکا ہے۔
تیسرا اعشاریہ لاء اینڈ آرڈر بھی پستی کا شکار نظر آ رہا ہے، دہشت گردی،چوری چکاری، لوٹ مار، قتل و غارت گری کھلے عام ہو رہی ہے، حکومتی رٹ کہیں بھی نظر نہیں آ رہی۔ایسے میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہم کس سمیت میں جا رہے ہیں؟ ہمارا حال کیسا ہے اور مستقبل کیسا ہو گا؟ قرآن ایمانی اعشاریوں کی زبانی فیصلہ سن لیں اور اللہ رب العزت سے توبہ استغفار کریں۔