پاکستانی سیاست دان کیا چاہتے ہیں؟

پاکستانی سیاست دان کیا چاہتے ہیں؟
پاکستانی سیاست دان کیا چاہتے ہیں؟

  


برمنگھم سے آج یہ لکھی جانے والی سطور، اِس لحاظ سے آخری ہیں کہ اب بدھ کو کالم لکھنا ہو گا،یوں یہ اِس ہفتے کا آخری کالم ہے،اب انشاء اللہ اگلی گذارشات لاہور سے اپنے دفتر میں بیٹھ کر سپردِ قلم کروں گا، اب تو واپسی کی تیاری جاری ہے اور گڑیا بیٹی پیکنگ میں مصروف ہے، طے تو یہ کیا تھا کہ روانگی سے پہلے بچا وقت بچوں کے ساتھ گذرے گا، ابھی تک اُن کو یہ نہیں بتایا کہ اُن کے نانو واپس جا رہے ہیں،ہفتہ اور اتوار اُن کے سکول کی چھٹی ہے اور طے یہ تھا کہ جمعے سے اتوار تک کا وقت اُنہی کے لئے تھا لیکن جمعے ہی کی صبح یو کے پاکستان کونسل کے صدر اعجاز صدیقی کا فون آ گیا، اُن کی خواہش تھی کہ ہفتے کو دوپہر کا کھانا اُن کے ساتھ کھایا جائے جہاں چند دوست اور بھی  ہوں گے، اُن سے معذرت کی کہ بچوں کو کچھ وقت دینا چاہتے ہیں اِس لئے کسی طرف آ جا نہیں رہے،اُن کے بے حد اصرار پر جمعے کی شام کو جانا پڑا، پُرتکلف کھانے کا اہتمام اُنہوں نے اپنے گھر پر ہی کر لیا جو اُن کی اہلیہ محترمہ نے تیار کیا اور بہت ذائقے والا تھا، افضل گجر اور مدثر قاضی بھی شریک محفل تھے۔ یہ مجلس مختصر مگر پُرمغز رہی، اعجاز صدیقی سماجی کام بہت کرتے اور پاکستان کے حوالے سے فکر مند رہتے ہیں کہ اُن کی تنظیم کا کام ہی پاک برطانیہ تعلقات کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنانا ہے اور وہ یہاں پاکستان نژاد شہریوں کے مسائل حل کرانے میں مصروف رہتے ہیں۔وہ پاکستان کے حالات سے مکمل طور پر باخبر ہیں اور بڑی فکر مندی سے وہی سوال کر رہے تھے کہ کیا ہو گا؟ میرے لیے مشکل مقام تھا اور میں اُن سے پھر یہی کہنے پر مجبور ہوا کہ دُعا کیجئے اور ممکن ہو تو کوشش بھی کریں کہ وہ سماجی کام ہی تو کر رہے ہیں۔


ہم گفتگو کر رہے تھے تو ٹیلی ویژن پر رانا ثناء اللہ کی بات چیت اور یہ خبر چل رہی تھی کہ مسلم لیگ(ن) کے رہبر قائد محمد نواز شریف کی رہائش پر مسلم لیگی رہنماؤں کا اجلاس ہوا ہے۔رانا ثناء اللہ کے مطابق اِس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ انتخابات میں بھرپور حصہ لیا جائے، نواز شریف نے تیاریوں کی ہدایت کی، بقول رانا ثناء اللہ مریم نواز تو جلد پاکستان آ رہی ہیں کہ گلے کے آپریشن کے بعد اب صحت مند ہیں تاہم محمد نواز شریف کی واپسی میں حائل چند قانونی رکاوٹیں دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اِس کے بعد پاکستان آنے کی تاریخ کا تعین خود اُنہوں نے کرنا ہے، لندن سے یہ خبر بھی دی گئی کہ مسلم لیگ(ن) نے آئینی اداروں کی مداخلت کے حوالے سے غور کیا اور یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ اب پھر سے جارحانہ حکمت عملی اپنائی جائے گی۔ نواز شریف نے ہدایت کی کہ کارکن مہم شروع کریں۔ مریم نواز اور حمزہ کے بعد وہ خود آ کر مہم سنبھالیں گے۔یہ خبریں بڑی دلچسپی سے سنی اور دیکھی گئیں تاہم یہاں سے جو عام تاثر ملا کہ نواز شریف کی یہ ہچکچاہٹ کیوں؟ اگر گرفتاری کا خطرہ ہے تو اُن کو خود پیش کر دینا چاہئے کہ سیاسی رہنماؤں کا تو قد بڑھ جاتا ہے اور نواز شریف یہاں چین و آرام سے تشریف فرما ہیں۔بہرحال تاثر اب یہی ہے کہ مسلم لیگ(ن) کی طرف سے بار بار اُن کی آمد کی اطلاع دے کر عوامی دلچسپی ہی کم کر دی اور اب وہ بے چینی نہیں جو پہلے سے تھی۔ ممکن ہے کہ مریم نواز کے آنے اور رابطہ عوامی مہم شروع کرنے کے بعد پھر سے نواز شریف کی واپسی کی تمنا اُبھر آئے۔بہرحال خود مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے آس دِلا دِلا کر مسلم لیگیوں کو ٹھنڈا کر دیا ہے کہ اب وہ حرکت ہی نہیں کر رہے۔ مریم اور حمزہ کے بعد نواز شریف کی آمد میں پھر تاخیر ہوئی تو عوام میں منفی رجحان کا مزید اضافہ ہو گا۔


پاکستان کی سیاست کئی پہلوؤں سے تشویشناک اور  کئی حوالوں سے شرمندگی والی ہو گئی ہے کہ واضح آئینی صورت سامنے ہونے کے باوجود آئین سے انحراف کیا جا رہا ہے۔ خیبرپختونخوا میں پہلی ہی کوشش کے دوران نگران وزیراعلیٰ کا فیصلہ ہو گیا جو متفقہ ہوا اور اب اعظم خان وزیراعلیٰ ہوں گے لیکن پنجاب میں فیصلہ نہیں ہوا اور گیند الیکشن کمیشن کی کورٹ میں پھینک دی گئی۔اِس سلسلے میں مجھے نہ صرف حیرت بلکہ دُکھ چوہدری پرویز الٰہی کے حالیہ بیان سے ہوا جو اُنہوں نے نگران وزیراعلیٰ کے تقرر کے حوالے سے دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے نامزد وزیراعلیٰ اُن کو منظور نہیں،ایسے وزیراعلیٰ کو کام نہیں کرنے دیا جائے گا۔ یہ بیان غیر مناسب اور آئینی ضرورت سے گریز کا ہے۔اگر الیکشن کمیشن پر اعتماد نہ ہونے کے باعث یہ منظور نہیں تو پھر یہ نوبت نہیں آنی چاہئے تھی، آئین ہی کے تقاضے کے مطابق آپ(پرویز الٰہی) کی ایڈوائس پر ایوان کو تحلیل کیا گیا، آئین ہی کا تقاضہ ہے کہ تحلیل کے بعد قائد حزبِ اقتدار اور قائد حزبِ اختلاف باہمی مشاورت سے نگران وزیراعلیٰ کی تقرری پر رضا مند ہوں اور اگر ایسا نہ ہو تو معاملہ پارلیمانی کمیٹی حل کرے،ابتدا ء میں قائدین اقتدار و اختلاف میں اتفاق نہ ہونے کے بعد پارلیمانی کمیٹی کا تعین ہوا، اِس میں بھی کسی نام پر اتفاق نہ ہوا، اب آخری صورت ہی بچی ہے کہ فیصلہ الیکشن کمیشن کر دے۔ تجویز کردہ نام کمیشن کو بجوا دیئے گئے اور اب اُن میں سے ایک نام کا اعلان اِس ادارے ہی کی طرف سے ہونا ہے، یہ آئینی مجبوری ہے اور چوہدری پرویز الٰہی مانیں یا نہ مانیں جو نام کمیشن دے گا وہی نگرانی وزیراعلیٰ ہو گا۔ چوہدری پرویز الٰہی انکار نہیں کر سکتے۔چوہدری پرویز الٰہی کو خود ہی اپنے اِس انداز پر غور کر لینا چاہیے کہ یہ اُس گھرانے کی روایت والا ہے۔اِس سے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد اور عمران خان کو اپنا لیڈر مان لینے کے بعد اُن (چوہدری) پر بھی کپتان کا رنگ اور اندازِ سیاست غالب آ گیا ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی  اب خود عارضی وزیراعلیٰ ہیں۔اِس حیثیت میں وہ قانونی طور پر بے اختیار ہیں اور روزمرہ کے ضروری امور ہی نمٹا سکتے ہیں وہ نگران وزیراعلیٰ کو نہ ماننے کا اعلان کرتے رہیں لیکن آئینی صورت یہی ہے کہ اب پنجاب کے لئے تجویز کیے گئے ناموں سے سے جس نام کی اجازت الیکشن کمیشن دے گا وہ سب کو ماننا ہو گا۔


پاکستان سے ملنے والی خبریں ابھی تک تشویشناک ہیں، ایک طرف حکومتی احباب گیس، پیٹرولیم کی کمی پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو دوسری طرف عمران خان صاحب اعلان مہم جوئی کرتے چلے جا رہے ہیں۔اب تو یہ محسوس  ہونے لگا ہے کہ کپتان کا مشن ”نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے“ والا ہو گیا ہے۔ سب حضرات یہی کہہ رہے ہیں کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں، لیکن عملی تصویر بالکل مختلف ہے کیا یہ سب حضرات پھر سے آمریت چاہتے ہیں۔اگر اُن کے دِل میں یہ خیال ہے تو نکال دیں کہ ب آمریت کا دور واپس آنا ممکن نہیں اور متعلقین کا یہ پختہ عزم ہے تاہم اِس مہم جوئی سے یہ ضرور تاثر بن رہا ہے کہ حکمران جہاں جہاں سے امداد کی کوشش کر رہے ہیں،اُن ممالک پر اثر انداز  ہو کر باور کرایا جائے کہ اُن کی امداد خوردبرد ہو گی اور استحکام کے کام نہیں آئے گی، یہ تاثر بنانا ملکی مفاد میں نہیں اور ملک کی بھلائی کا دعویٰ بھی باطل نظر  آنے لگتا ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کی تازہ لہر خطرناک صورت اختیار کر گئی ہے، ایک ہی روز میں پانچ چھ مقامات پر دہشت گردی ہوئی، کیا یہ حالات خوش کن ہیں کہ سیاست دان انتخابی مرلی بجا رہے ہیں، اللہ کے واسطے ملک کا سوچو۔

مزید :

رائے -کالم -