خالد چودھری کے نام خط
لاہور کے ایماندار ترین اخبار نویس جناب خالد چودھری بھی دنیا کی رونقیں "تیاگ" کر میانی صاحب کے "شہر خموشاں" میں جا بسے۔۔۔۔۔۔عجب "خوشبو دار آدمی" تھے کہ بیس سالہ صحافتی رفاقت "خوشگوار یادوں"سے مہک رہی ہے۔۔۔۔۔چودھری صاحب سے نام کی حد تک شناسائی تو تھی لیکن پہلی باقاعدہ ملاقات دو ہزار تین میں کراچی قیام کے دوران ہوئی جب شام کے اخبار" نیا اخبار" کی لانچنگ کے لیے پہلی بار شہر قائد جانا ہوا۔۔۔۔۔۔مجھے روزنامہ خبریں جوائن کیے ہوئے ابھی چند روز ہی ہوئے تھے کہ ایک شام لاہور کے بہترین ایڈیٹر جناب عظیم نذیر نیوزروم میں آئے اور مجھ سمیت چند کارکنوں کو اسی رات ہنگامی طور پر کراچی پہنچنے کا حکم دیا۔۔۔۔۔۔۔
ہوا یہ کہ جناب ضیا شاہد کو اطلاع ملی کہ ایک اخباری گروپ نیا اخبار کی ٹیم کے کچھ لوگوں کو اجرا سے پہلے ہی توڑ کر بحران پیدا کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔ایک دن پہلے جناب خالد چودھری کی قیادت میں ایک "قافلہ"بذریعہ ٹرین کراچی پہنچ چکا تھا کہ راتوں رات ہماری صورت میں ایک اور" کمک" بذریعہ جہاز پہنچ گئی۔۔۔۔۔۔
ضیا صاحب کی" پیش بندی" سے بھائی لوگ "بندے" بن گئے اور نیا اخبار بڑی دھوم سے نکلا۔۔۔۔۔کچھ دنوں بعد ساری" ریزرو فورس" واپس آگئی مگر چودھری صاحب اور مجھے تا حکم ثانی کراچی ہی رکنے کا حکم ملا۔۔۔۔۔۔
میں تب چھبیس سال کا نوجوان اور وہ ساٹھ سال کے "نوجوان بزرگ" تھے۔۔۔۔۔۔ہم کم و بیش تین مہینے ایک ساتھ رہے۔۔۔۔۔چودھری صاحب نے "اپنے بچوں" کی طرح میرا خیال رکھا۔۔۔۔۔۔میں نے بھی "اپنے بڑوں" کی طرح ان کا احترام کیا۔۔۔۔۔شاید یہی وجہ تھی کہ جب میں انہیں لاہور واپسی کے لیے ائیرپورٹ چھوڑنے آیا تو وہ جذباتی ہوگئے۔۔۔۔۔مجھے گلے لگایا اور انگریزی میں کہا یو آر مائی سن۔۔۔۔۔میں بھی بچوں کی طرح رودیا۔۔۔۔۔۔
میں نے انہی دنوں دسمبر ستمبر دو ہزار تین کو انہیں تین صفحات پر مشتمل ایک خط لکھا۔۔۔۔۔جس کے کچھ مندرجات پیش خدمت ہیں۔۔۔۔میں نے سلام مسنون کے بعد لکھا:
جناب خالد چودھری صاحب۔۔۔۔۔نیا سال مبارک ہو۔۔۔۔۔۔ خط و کتابت چھوڑے مدت ہوئی لیکن ائیر پورٹ سے واپسی پر دماغ سوچنے۔۔۔۔۔۔زبان اظہار خیال اور قلم بے چین ہو گیا کہ لکھو مگر ہاتھ کانپ رہے ہیں کہ کیالکھوں ۔۔۔۔کیسےلکھوں اور کن الفاظ میں لکھوں؟؟؟سوچتا ہوں کہ کہیں لکھا ہوا گستاخی یا خوشامدنہ سمجھا جائے کہ اب خوشامد فیشن بن چکا اور محبت محض تجارت۔۔۔۔!!!
دیوانہ ہوا جا رہا ہوں کہ وہ شخص جو اس "پر خار" پروفیشن میں" لہو لہو" ہوا۔۔۔۔۔جس نے حرمت قلم کے لیے اپنی جوانی کے شب و روز کال کوٹھریوں کو "دان"کر دیے اور ایک "مرد مومن" کے" وار مردانہ وار" سہے۔۔۔۔وہ مجھ ایسے سٹوڈنٹ کو اپنا بیٹا سمجھے۔۔۔۔۔جتنا میرا تجربہ۔۔۔۔اتنا اس قیدو بند کا عرصہ۔۔۔۔۔
چودھری صاحب ۔۔۔۔اپنا تو دامن خالی دکھائی دیتا ہے۔۔۔۔دعا کریں اللہ ہمیں ادب کا قرینہ سکھا دے۔۔۔۔۔۔۔کسی نے کیا خوب بات کہی کہ زندگی میں ایسے ملو کہ زندہ رہو تو لوگ تمہیں دوبارہ ملنے کی خواہش کریں اور اگر دنیا چھوڑ جائو تو لوگ تمہیں یاد کریں۔۔۔۔اللہ آپ کو خوش و خرم رکھے۔۔۔۔اپ مسکراہٹیں بکھیرتے ۔۔اور۔۔پیار بانٹتے رہیں۔۔۔۔کہ یہی "سرمایہ آخرت" ہے۔۔۔۔۔میرے لیے آپ کی محبت ۔۔۔۔خلوص اور رہنمائی ہی نئے سال کا تحفہ ہے۔۔۔۔۔۔
خالد چودھری صاحب نے یہ خط جناب ضیا شاہد کو دکھایا تو انہوں نے میرے "اندازتحریر" کی تعریف کی۔۔۔۔۔پھر کسی ایک میٹنگ میں میری "کسی غلطی "پر چیف صاحب برہم ہوگئے اور طعنہ دیا کہ یہ خالد چودھری کا شیکسپئیر ہے۔۔۔۔۔میں نے چودھری صاحب کو بتایا تو قہقہہ لگایا اور کہنے لگے ضیا صاحب دل کے برے نہیں۔۔۔۔
"یو آر مائی سن" سے ایک "شگوفہ" یاد آگیا۔۔۔۔۔چودھری صاحب کے بعد اطہر عارف کراچی آفس پہنچے۔۔۔۔وہ واپس آنے لگے تو مجھے ائیرپورٹ پر اسی انداز میں کہنے لگے خالد چودھری نے تمہیں "یو آر مائی سن" کہا تھا میں کہتا ہوں" یو آر مائی گرینڈ سن"۔۔۔۔
اللہ اللہ کرکے کچھ عرصے بعد میری بھی واپسی ہوگئی۔۔۔۔۔۔خبریں لاہور میں ہمارے کراچی ڈیسک کے ساتھ ہی خالد چودھری کا کمرہ تھا۔۔۔۔دو ہزار تین سے سات تک چار سال ہم خبریں میں ایک ساتھ رہے۔۔۔۔۔۔۔خبریں میں ہی تھے کہ پنجاب یونین آف جرنلسٹس کا ایک الیکشن آگیا۔۔۔مجھے فون کیا کہ کہاں ہو؟میں نے کہا شکرگڑھ۔۔۔۔۔کہنے لگے کہ آج ہی واپس آئو اور جناب عارف حمید بھٹی کے ساتھ نائب صدر کے لیے کاغذات جمع کرائو۔۔۔۔۔میں نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کاغذات جمع کرادیے۔۔۔۔۔۔اگلے دن دفتر پہنچا تو ایک مبینہ یونین لیڈر کو "ہانپتے" پایا۔۔۔۔۔۔مجھے مختلف" واسطے" دیے۔۔۔۔میں نے کہہ دیا کہ مجھے خالد چودھری نے الیکشن کرنے کا کہا ہے تو ادھر دوڑ لگادی۔۔۔۔
چودھری صاحب الیکشن کمیٹی کا بھی حصہ تھے۔۔۔۔دال نہ گلی تو مبینہ یونین لیڈر نے پتہ کھیلا کہ آپ الیکشن کمیشن میں بھی ہیں اور امیدوار بھی دے دہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔چودھری صاحب اصول پسند آدمی تھے۔۔۔۔ اسی شب مجھے بیڈن روڈ اپنے فلیٹ پر بلایا۔۔۔جناب تنویر عباس نقوی بھی ادھر ہی تشریف فرما تھے۔۔۔۔۔چودھری صاحب کہنے لگے کہ آپ واقعی میرے امیدوار ہو اور میں الیکشن کمیشن میں ہوں۔۔۔۔۔اب آپ کاغذات واپس لے لیں یا میں الیکشن کمیٹی چھوڑ دیتا ہوں۔۔۔۔میں ان کی دلیل کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے الیکشن سے دستبردار ہو گیا۔۔۔۔۔۔
پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر کے میڈیا ٹائمز گروپ نے دو ہزار سات میں اپنے انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمز کے ساتھ ساتھ اردو اخبار آج کل لا نچ کرنے کا منصوبہ بنایا جناب نجم سیٹھی ایڈیٹر انچیف اور جناب خالد چودھری ایڈیٹر بنے۔۔۔۔۔۔اردو کے اس اچھوتے اخبار کے" آرکی ٹیکچر "جناب تنویر عباس نقوی تھے۔۔۔۔۔۔نیوز روم میں جناب طاہر پرویز بٹ۔۔۔۔جناب عامر اور ندیم۔۔۔۔۔رپورٹنگ میں جناب راجہ اورنگزیب اور حافظ عبدالودو میگزین میں نوشین نقوی ایسے لوگ تھے۔۔۔۔۔۔۔میں اس اخبار کا سٹی ایڈیٹر اور انچارج فرائیڈے ایڈیشن تھا۔۔۔۔۔۔
جناب تنویر عباس نقوی نے آج کل کے خاکے میں اس انداز میں رنگ بھرے کہ لوگ انگشت بدنداں رہ گئے۔۔۔۔۔۔لاہور ۔۔۔۔اسلام آباد اور کراچی میں منفرد اخباد کی دھوم مچ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ڈیڑھ سال بعد چودھری اور نقوی صاحب کی "خوب صورت جوڑی "کو نظر بد کھاگئی۔۔۔۔ نقوی صاحب کے گھر جانے کے بعد چودھری صاحب بھی" ڈھال" کے بغیر "نڈھال" سے ہوگئے۔۔۔۔۔۔
انہی دنوں کی بات ہے کہ ایک شب مجھے انگریزی اخبار کی
"اسٹیبلشمنٹ ایڈیٹر" نے کہا کہ آپ سے ایک نشست درکار ہے۔۔۔۔۔ہم گلبرگ کے ایک ریستوران میں بیٹھے۔۔۔۔۔۔ انہوں نے استفسار کیا کہ اگر خالد چودھری کی جگہ "دانشور صاحب" کو ایڈیٹر بنا دیا جائے تو۔۔۔۔۔؟میں نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ چودھری صاحب کا ایک شاندار صحافتی کیرئیر ہے۔۔۔۔وہ رپورٹر سے ایڈیٹر بنے۔۔۔وہ" ڈیڈ آنسٹ" اخبار نویس ہیں۔۔۔۔وہ میرٹ پر ایڈیٹر ہیں۔۔۔۔بولے دانشور بارے کیا خیال ہے۔۔۔۔۔؟میں نے برجستہ جواب دیا "جسٹ آ وزیٹنگ پروفیسر"۔۔۔۔وہ مسکرائے اور کہا میرا بھی یہی خیال ہے مگر گورنر کے پی آر او "موصوف" کو مسند ادارت پر جلوہ افروز دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔پھر بولے اگر خالد چودھری ایڈیٹر نہ رہے تو ۔۔۔۔؟میں نے کہا ہم لوگ بھی ادھر نہیں رہیں گے۔۔۔۔اگلی شب انہوں نے چیف نیوز ایڈیٹر عامر ندیم سے اسی طرح کی نشست کی اور فیڈ بیک لیا۔۔۔۔۔یوں مائنس چودھری فارمولہ ناکام ٹھہرا اور "دانشور صاحب" کی شیروانی ہینگر پر لٹکی رہ گئی۔۔۔۔۔۔
سلمان تاثیر کے قتل بعد اخبار ہچکیاں لینے لگا۔۔۔ایک شب دفتر پہنچا تو نیوزروم کے دروازے پر وہی "اسٹیبلشمنٹ ایڈیٹر" ملے۔۔۔کہنے لگے ایک دن ہم لوگوں نے ہی ایڈیٹر بننا ہے۔۔۔۔۔۔۔چانس کبھی کبھی ملتا ہے۔۔۔۔۔۔۔خالد چودھری کے معاملات کافی بگڑ چکے ہیں۔۔۔۔بے رحم چھانٹی ہونے جا رہی ہے۔۔۔۔آپ"ٹیک اوور" کر لیں۔۔۔۔۔میں نے دست بستہ عرض کی حضور والا خالد چودھری تو دور کی بات میں تو جناب طاہر پرویز بٹ اور عامر ندیم کو بائی پاس کرنا بھی" گناہ" سمجھتا ہوں۔۔۔۔۔کہنے لگے کل تک سوچ لیجیے۔۔۔اگلی شب ملے تو پوچھا کیا سوچا ۔۔۔؟میں نے کہا کل والے بیانیے پر حرف بہ حرف قائم ہوں ۔۔۔وہ معنی خیز انداز میں مسکرائے اور کہا پھر آپ کی مرضی۔۔۔۔۔۔پھر اگلےدن شام سے پہلے کچھ" وعدہ معاف گواہوں" کے سوا خالد چودھری کی پوری ٹیم کی چھٹی ہو گئی۔۔۔۔
چودھری صاحب میں خامیاں کم خوبیاں زیادہ تھیں۔۔۔۔۔صحا فیوں کے اس نیک نام یونین لیڈر نے آدھی صدی صحافت کو دی۔۔۔۔۔۔۔جدت پسند۔۔۔۔باوقار۔۔۔۔باکرداد اور با اصول اخبار نویس تھے۔۔۔۔۔خوش گفتار۔۔۔۔خوش لباس۔۔۔اور خوش خوراک بھی تھے مگر بہت کم بولتے اور بہت کم کھاتے۔۔۔۔۔۔رئیس گھرانے کے درویش آدمی تھے۔۔۔۔۔۔۔۔کسی کا برا سوچا نہ بدلہ لیا۔۔۔۔۔۔۔۔وہ" رقیب" تھے جو گالیاں کھا کے بھی بے مزہ نہ ہوتے۔۔۔۔۔
الحمد للہ۔۔۔مرتے دم تک ادب و احترام کا یہ رشتہ قائم رہا۔۔۔۔۔ایک سال پہلے میرے والد گرامی گرگئے۔۔۔۔ چودھری صاحب علیل تھے ۔۔۔میرے منع کرنے کے باوجود فواد بشارت کے ساتھ میرے گھر کی کتنی ہی سیڑھیاں چڑھ کر تعزیت کے لیے تشریف لائے۔۔۔۔۔
برادرم فواد بشارت کو بھی" سلیوٹ "کہ انہوں نے چودھری صاحب سے تعلق کا حق ادا کردیا اور اپنے باپ کی طرح ان کی خدمت کی۔۔۔۔
خالد چودھری صاحب نے بطور رپورٹر مساوات سے صحافتی کیرئیر شروع کیا اور مساوات میں ہی بطور ایڈیٹر آخری ملازمت کی۔۔۔۔ ادھر بھی ایک" بوڑھے میڈیا مینجر" نے آج کل والی" فلم" دہرائی لیکن وہ آج کل کی طرح ادھر بھی "مسکرا" کر چل دیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چودھری صاحب کو پیپلز پارٹی سے عشق تھا۔۔۔۔۔بھٹو صاحب ان کو بیٹا کہتے۔۔۔۔ انہوں نے ضیا آمریت کے دوران بھٹو سے محبت کی پاداش میں پانچ سو بموں کا کیس بھی بھگتا۔۔۔۔۔بے نظیر بھی ان کی قدردان تھیں۔۔۔۔چاہتے تو وزیر مشیر بن جاتے مگر اس خود دار اخبار نویس نے قلم کی حرمت کا عہد نبھایا کہ وہ فیض اور جالب کے قبیلے کے ایک "سردار"تھے۔۔۔۔۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں