سیاست کا بازار اپنی جگہ ہر وقت گرم ہی رہتا ہے لیکن سندھ حکومت عوام کی حفاظت میں وہ ناکام نظر آر ہی ہے،نارتھ کراچی کے علاقے میں ایک بچے کی ہلاکت نے پورے شہر کو آبدیدہ کردیا ہے۔
گورنر سندھ نے بھی بچے کی بازیابی کیلئے بیانات دیئے لیکن گیارہ سالہ بچہ جو سات جنوری کو لاپتہ ہوا، بالآخر اس کی لاش واٹر ٹینکر سے برآمد ہوگئی، اس نوعیت کے انسانیت سوز جرائم اس وجہ سے رونما ہورہے ہیں کہ بڑے سے بڑے جرم پر بھی لوگوں کو سزائیں نہیں ملتیں۔ اکثر لوگ انصاف کے حصول کیلئے عدالتوں میں دھکے کھاتے ہیں، پولیس کے کرپٹ نظام کی وجہ سے تھانوں اور کچہریوں میں ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی قیدیوں کیلئے تو آواز اٹھاتی ہیں لیکن عوام پر ہونے والے مظالم پر خاموش رہتی ہیں۔
صوبہ سندھ کے متعدد علاقوں میں خواتین اور بچوں کے ساتھ مظالم کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں، سندھ کے ایک پیر کے ہاں ایک کم سن بچی جو گھر میں ملازمہ بھی تھی،کے ساتھ جنسی زیادتی کا واقعہ سامنے آیا تھا اور پھر وہ زندگی کی بازی بھی ہار گئی تھی لیکن بااثر پیر نے لواحقین کو انتظامیہ کی مدد سے خاموش کروادیا تھا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے اراکین نے لیاری سے ایک جلوس نکالا، وہ اپنے حقوق کے حصول اور لاپتہ افراد کے متعلق آواز بلند کررہے تھے جبکہ 25 جنوری کو دالبدین میں منعقد ہونے والے جلسے کیلئے آگاہی مہم چلارہے تھے لیکن کراچی پولیس نے متعدد افراد کو گرفتار کرلیا اور ریلی کے شرکاء کو زدوکوب کیا گیا۔یہ بات حیرت انگیز ہے کہ حکومت پُرامن ریلی پر بھی کریک ڈاون کردیتی ہے، آئین پاکستان کے مطابق پُرامن احتجاج کا حق کسی شہری سے چھینا نہیں جاسکتا۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے بھی کراچی پریس کلب میں ایک سیمینار سے خطاب میں بلوچستان کے عوام کے حقوق کی بات کی ہے اور لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے حکومت کو کردار اداکرنے کی بات کی ہے۔
تحریک انصاف کے سابق چیئرمین عمران خان کے خلاف القادر ٹرسٹ کا احتساب عدالت سے فیصلہ آنے کے بعد کراچی میں بھی سیاسی رہنماؤں کی جانب سے ردعمل آیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے فیصلے کی حمایت کی گئی ہے، جبکہ پیپلز پارٹی بھی ایسی جماعت ہے جس کے تین وزیراعظم عدالتی فیصلوں کا شکار ہوئے، اُس حوالے سے ان کا موقف ہے کہ عدالتوں میں ان کے رہنماؤں کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا تھا۔ جبکہ صدرمملکت آصف علی زرداری بھی کئی مقدمات کا سامنا کرتے رہے، اب جبکہ سابق وزیراعظم عمران خان کو سزا سنائی گئی ہے تو پیپلز پارٹی کے وزراء کا انداز مختلف ہے۔
سابق وزیراعظم کیخلاف القادر ٹرسٹ کے حوالے سے فیصلے کو اُن کی پارٹی ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے جارہی ہے، اس میں کئی سوالات، جواب طلب ہیں جو ہائی کورٹ میں سامنے آنے کا امکان ہے۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سابق وزیراعظم نے جو بند لفافہ لہرا کر وزراء سے منظوری لی تھی، عدالت میں وہ پیش نہیں کیا گیا اور اُس کے مندرجات بھی عدالت کے سامنے آنے چاہئیں۔
برطانیہ کی کرائم ایجنسی نے اگر حکومت پاکستان سے رقوم کی منتقلی کی بات کی تھی تو اُن کی خط و کتابت بھی عدالت میں پیش ہونی چاہیے تھی۔ یقینا ہائی کورٹ میں یہ بات بھی کھلے گی کہ پاکستان سے غیر قانونی طور پر بھیجے جانے والی رقم سے برطانیہ میں کونسی پراپرٹی کس نے خریدی تھی۔
گویا ابھی اس مقدمے سے جڑے ہوئے کچھ اور حقائق بھی سامنے آنے کی توقع ہے اس کے بعد حتمی رائے قائم کرنے میں مدد ملے گی۔ جبکہ سابق وزیراعظم نے اگر اپنے لیے فوائد لیے تو وہ بھی عیاں ہونگے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ القاد ٹرسٹ کو حکومت کی تحویل میں لیا جائے۔ یہ فیصلہ بھی جواب طلب ہے کہ پاکستان میں کسی بھی پرائیویٹ ٹرسٹ کو حکومتی تحویل میں لیے جانے کا کیا طریقہ کار ہے۔ کیا حکومت ایڈمنسٹریٹر مقرر کرسکتی ہے یا پھر ٹرسٹیز کو برطرف کرسکتی ہے۔ یقینا ہائی کورٹ میں اس پر مفصل بحث ہوگی۔
بلاول بھٹو زرداری نے، وزیراعلیٰ سندھ کو ہدایت کی ہے کہ سندھ میں میڈیا یونیورسٹی قائم ہونی چاہیے۔ یقینا یہ ایک اچھا اعلان ہے۔ مستقبل کے حوالے سے نوجوانوں کو میڈیا انڈسٹری کیلئے تیار کرنے کیلئے میڈیا کی جدید تعلیم دینے کی ضرورت ہے اور میڈیا کے جدید انداز بھی اپنانے ہونگے، موجودہ حالات میں میڈیا انڈسٹری شدید مشکلات و مسائل کا شکار ہے اس پر بھرپور توجہ دینی چاہیے۔
کوٹری بیرج سے نکلنے والی نہر کا کام ابھی تک مکمل نہیں ہوسکا، اس لیے کراچی کو فراہم کئے جانے والے پانی کی فراہمی میں تعطل پیدا ہوگیا ہے۔ شہر کراچی کی پانی کی ضرورت تقریباً 1200 کیوسک روزانہ ہے لیکن پانی کی فراہمی میں کمی بھی واقع ہوتی رہتی ہے جبکہ اس کی تقسیم کا طریقہ کار درست نہ ہونے کی وجہ سے عوام کیلئے پریشانی ختم نہیں ہوتی۔ اس کے ساتھ اگر بجلی کے نظام میں تعطل پیدا ہوجائے تو مسائل دوچند ہوجاتے ہیں۔ واٹر بورڈ کا ادارہ ابھی تک مربوط نظام تشکیل دینے میں کامیاب نہیں ہوا، جبکہ میئر کراچی براہ راست اس کی نگرانی کرتا ہے۔
میئر کراچی نے ایم کیو ایم کے فلاحی ادارے خدمت خلق فاؤنڈیشن کو بھی اپنے زیرانتظام پراپرٹی کو قانونی طور پر استعمال کرنے کی ہدایت کی ہے۔
شہر کراچی میں کئی فلاحی ادارے کام کررہے ہیں،اہم نوعیت کی پراپرٹی بھی ان کے زیراستعمال ہے۔ اہم شاہراؤں کے کناروں پر لنگر خانے قائم کیے گئے ہیں، اس حوالے سے بھی کوئی پالیسی دی جانی چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کے فلاحی ادارے اگر قانون کی خلاف ورزی کریں گے تو پھر وہ دیگر کے متعلق بیان بازی کرنے کا اخلاقی جواز کھو دیں گے۔
شہر کراچی میں کورونا دباؤ کے پھیلنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ خشک سردی کے باعث کئی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ شہر میں صفائی ستھرائی کے ناقص نظام نے پہلے ہی زندگی اجیرن بنارکھی ہے۔ شہری حکومت کو وزارت صحت کے ساتھ مل کر اس صورتحال کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
٭٭٭
بچہ بازیاب نہ ہوا،لاش مل گئی!