تمام مسلمانوں کے لئے چوڑیاں، غزہ مکینوں کے لئے کفن
نمل نامہ (محمد زبیراعوان) رمضان کا آخری عشرہ جاری ہے اور بیشترممالک میں عید کی خریداری کے سلسلے میں بازاروں میں رش بڑھ گیاہے ، دکاندار دونوں ہاتھوں سے ’مال‘ لپیٹ رہے ہیں ، اسی طرح کاکچھ کاروبارغزہ میں بھی جاری ہے لیکن وہاں کاسمیٹکس ، چوڑیوں ، جوتے یا نیل پالش کا نہیں بلکہ کفن بیچنے و خریدنے کا ہے ۔
رمضان المبارک میں جہاں مساجد آباد ہوتی ہیں ، وہیں گھروں پر بھی سحری وافطاری کا خصوصی اہتمام ہوتاہے ، رمضان شروع ہوتے ہی والدین کو اپنے بچوں کی شاپنگ اور بچوں کے بھتے یعنی عیدی وغیرہ کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔ رمضان کے دوسرے عشرے ہی بازاروں میں رش بڑھنے لگتاہے اور بدستور عید تک بڑھتاچلاجاتاہے ، یہاں تک کہ عمومی طورپر بڑی مارکیٹوں میں رات گئے چاند رات کو پولیس مداخلت کرکے دکانیں بند کراتی ہے ، کوئی اپنے کسی عزیز کے لیے کپڑے خرید رہاہے تو کوئی کسی کیلئے پرفیوم کا تحفہ ، کسی کو کپڑوں کی فکر ہے تو کسی کو نیل پالش کے لالے پڑے ہیں ۔والدین رمضان المبارک میں بڑھنے والی مہنگائی سے پریشان ہیں تو بچے من پسند شاپنگ نہ ہونے پر نالاں ، دنیا کے دیگر کئی ممالک کے برعکس غزہ مکین پیاروں کو اپنے ہاتھوں سے دفنانے کے خواہاں ہیں ۔
صبح اخبار اُٹھایا تو بازاروں میں خریداری کیلئے رش بڑھ جانے کی خبرکیساتھ ہی فلسطینی مسلمانوں کیخلاف صیہونی کارروائیاں جلی حروف میں لکھی ملیں ۔ آٹھ جولائی سے اسرائیل کی غزہ پر بربریت جاری ہے اوراس دوران درجنوں خواتین اور بیسیوں معصوم بچوں سمیت سینکڑوں فلسطینی شہید ہوچکے ہیں ۔شدید بمباری کی وجہ سے زخمی ہونیوالوں کو اُٹھانے کیلئے بروقت امدادی ٹیمیں بھی نہیں پہنچ سکتیں ،مسلسل حملوں کی وجہ سے مشکلات درپیش رہتی ہیں ، کئی زخمی سڑکوں اور گھروں کے ملبے میں سسکتے سسکتے دم توڑ جاتے ہیں ،سڑکیں خون سے سرخ ہیں ،بمباری سے درخت اکھڑگئے ہیں، معصوم بچے والدین سے چوری چھپے تباہ حال گھروں کے ملبے سے کھلونے ڈھونڈنے کی معصومانہ کوشش میں ہیں ۔
غزہ کے دکاندار وں نے ضروریات زندگی کی دیگر چیزیں منگوانا کم کردی ہیں اور کچھ اسرائیلی فوج کی تنبیہ پر اپنا خاندان بچا کر علاقے سے نقل مکانی کرگئے ہیں ، کپڑے کے دکانداروں نے شوخ کپڑے منگوانے کی بجائے سفید کپڑا منگوانا شروع کردیاہے جو شہدائے غزہ کے ’آخری سفر ‘کیلئے استعمال ہورہے ہیں ۔ فلسطینیوں کے جنازوں پر بھی فضائی حملے کیے جارہے ہیں ، جنازے میں جاتے لوگ خود ہی ’جنازہ‘بن جاتے ہیں ، ہر طرف بھگدڑ مچ جاتی ہے ، ایسے میں غزہ مکینوں کو عید کی شاپنگ سے کوئی غرض نہیں ، وہ صرف ایک ”سفید جوڑے“ میں اپنے پیاروں کو رخصت کرناچاہتے ہیں ۔