متحدہ اپوزیشن ایک طرف شیخ رشید کے بعد عمران نے بھی تحریک کا اعلان کر دیا
تجزیہ:چودھری خادم حسین
وہی ہوا جو ہونا تھا، متحدہ اپوزیشن رہی اپنی جگہ ہمارا تو اپنا فیصلہ ہے، فرزند راولپنڈی لال حویلی کے مکین یکم اگست سے تحریک کا اعلان کر چکے تھے کہ ان کے روحانی شاگرد عمران خان استاد سے آگے نکل گئے ہیں۔ انہوں نے 7 اگست سے تحریک کا اعلان کیا اور یہ مشروط ہے کہ پاناما لیکس پر ان کا مطالبہ تسلیم ہونے تک جاری رہے گی بلکہ ان کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت تک تحریک انصاف والے سڑکوں پر رہیں گے۔ یہ سڑکوں پر رہنا کیسا ہوگا اس کی وضاحت نہیں کی گئی البتہ یہ کہا گیا کہ پہلے دھرنا سے جو تجربہ حاصل ہوا وہ بروئے کار لایا جائے گا اس سے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ اب پھر کنٹینر ہوگا اور دھرنا ہوگا دھرنا ہوگا؟ بہر حال یہ امر طے ہے کہ عمران خان نے اپنا کہا پورا کیا حالانکہ کئی بار کہا گیا کہ سب کو ساتھ لے کر چلیں گے لیکن 19 جولائی والے متحدہ اپوزیشن کے اجلاس میں تحریک انصاف کی مرضی کے خلاف فیصلہ ہوا جو عوامی تحریک اور تحریک انصاف نے بھی تسلیم کیا کہ پہلے پارلیمان میں جدوجہد کی جائے اور اپنا مسودہ قانون تیار کر کے ایوان میں پیش کیا جائے اس کے بعد اگلا مرحلہ طے کریں گے لیکن عمران نے اپنا راستہ خود پسند کیا ہے اس لئے شاہ محمود قریشی کی سنجیدہ بات کہ جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچنے دیں گے دب کر رہ گئی ہے دیکھئے کیا ہوتا ہے۔ ویسے پاکستان میں بابوں نے بھی اپنی بات کرنا شروع کر دی ہے کہتے ہیں اگست صحیح مہینہ ہے ایک قاسم چودھری ہیں جو کہتے ہیں کہ اگست میں اوپر کی سطح پر تبدیلی نظر آ رہی ہے اور ہمارے خیال میں یہ تبدیلی کابینہ میں رد و بدل اور اضافے کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے۔
آج کی تازہ خبر یہ ہے کہ خورشید شاہ اور اسحاق ڈار کے مذاکرات کامیاب رہے اور ہر دو طرف سے الیکشن کمشن کے چار اراکین کے لئے ہر صوبے سے تین تین ناموں پر اتفاق ہوا ہے اب یہ چھ نام پارلیمانی کمیٹی میں زیر غور آئیں گے اور پھر چار نام طے کر لئے جائیں گے یہ سب 25 جولائی سے پہلے بہر صورت ہو جائے گا۔ سوال یہ پوچھا جائے گا کہ اگر الیکشن کمشن کے حوالے سے ایسا ہو سکتا ہے تو پھر پانامالیکس کے ٹی او آر نے کیا جرم کیا ہے کہ ان پر اتفاق نہیں ہو سکتا جو ’’چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔‘‘
ایک اطلاع ہے کہ قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے قانون و پارلیمانی امور نے ایک سب کمیٹی تشکیل دی ہے جو نیب کو آزاد خود مختار ادارہ بنانے کے لئے قانون میں ترامیم تجویز کرے گی۔ سب جماعتوں کے نمائندے شامل ہیں پیپلزپارٹی کے نوید قمر سربراہ ہیں۔
اس اطلاع سے بہت افسوس ہوا ہم ایک سے زیادہ مرتبہ توجہ دلا چکے ہیں کہ نیب کے حوالے سے پیپلزپارٹی کے دور حکومت اور مسلم لیگ (ن) کے حزب اختلاف میں ہوتے ہوئے مسودہ قانون پیش ہوا فریقین کا پورے مسودے پر اتفاق ہو گیا تھا صرف اراکین اور اراکین کے تقرر پر اختلاف تھا وہ مسودہ اس دور میں پیش تو نہ ہوا اور موجودہ دور میں بھی زیر التوا ہے اگرچہ ایک دو اجلاس بھی ہو چکے۔ اب یہ عجیب لگتا ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے ترامیم کے لئے ایک نئی کمیٹی تشکیل دی جائے۔ موجودہ نیب سے سب بے زار ہیں لیکن تاخیر کے لئے کمیٹی کمیٹی کھیل رہے ہیں۔ پھر کہتے ہیں جلدی کر لیں گے۔ اس کے لئے یہ سب جواب دہ ہیں۔ حالانکہ جب اتفاق رائے ہونا ہو تو ہو جاتا ہے۔ ان حضرات کو غور کر کے مثبت رویہ اختیار کرنا چاہئے۔
سندھ میں رینجرز اختیارات کا مسئلہ تنازعہ کی صورت اختیار کر گیا۔ تاریخ گزر گئی توسیع نہیں ہوئی۔ خبر کے مطابق رینجرز نے آپریشن معطل کر دیا۔ مولا بخش چانڈیو کہتے ہیں ایک دو روز میں حل ہو جائے گا چودھری نثار سکینڈل بنا رہے ہیں۔ ادھر سندھ ہائی کورٹ میں رٹ دائر ہوئی اور نوٹس ہو گیا کہ رینجرز کو اختیارات یا گورنر راج یہ معاملہ عدالت میں چلا گیا ہم تبصرہ سے گریز کرتے ہیں۔ بہر حال اگر پیپلزپارٹی مشاورت کرنا چاہتی ہے تو آج کے جدید دور میں یہ تاخیر ناروا لگتی ہے۔ بلاول ملک میں ہیں زرداری صاحب سکائپ پر آ سکتے تھے ان کے دربار میں حاضری تو ضروری نہیں تھی۔ بہر حال یہ رموز مملکت ہیں کیا فائدہ کیا نقصان ہوگا یہ آنے والا وقت بتائے گا۔