غلام قوم کا ایک ہی نعرہ

غلام قوم کا ایک ہی نعرہ
غلام قوم کا ایک ہی نعرہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گزشتہ 70برسوں سے غلام قوم کا ایک ہی نعرہ رہا ۔ دیکھو دیکھو ، کون آیا ، گھوڑا آیا ، ہاتھی آیا ، تلوارآئی ، تیر آیا ، ایوب ،یحییٰ،مشرف آیا ، اور اب شیر ، کپتان اور قادری بھی آگئے ۔ سب آگئے، لیکن نہیں آیا تو اس غلام قوم کو آزادی اور ڈھنگ سے جینے کا سلیقہ نہیں آیا ،عقل نہیں آئی ، شعور نہیں آیا جس کی وجہ سے خوشحالی نہیں آئی۔ یہ الفاظ نہیں تھے، بلکہ ایک زناٹے دار طمانچہ تھا، ہر اس ذی شعور کے منہ پر جو خود کو ایک محب وطن پاکستانی گردانتا ہے ۔ یہ محض الفاظ نہیں ایک بہتا ہو ا ناسور ہے ۔ جس پر آج ایک مخصوص گروپ ’’شکریہ راحیل شریف‘‘ کی پٹیاں اور ٹکور کر رہا ہے ۔ آج کل فوج اپنا کام نہایت احسن طریقے سے سرانجام دے رہی ہے، لیکن وہی مخصوص گروپ اسے متنازعہ بنانے پر تلا ہوا ہے جو برسر عام سوشل میڈیا پر کہہ رہا ہے کہ راحیل شریف (ن) لیگ کا حصہ ہے ،کیونکہ ان کے خلاف کارروائی نہیں کی جارہی ۔


پوری دنیا میں کسی بھی ملک کے حالات آمریت کے ذریعے نہیں بدلے اگر ایسا ہوتا تو آج ہم ترقی کی صف میں بہت آگے ہوتے ۔چور دروازے سے داخل ہو کر قابض تو بنا جاسکتا ہے ،مالک ہر گز نہیں کیا آج تک آپ نے کبھی خود سے سوال کیا ہے کہ اس ملک میں خوشحالی کیوں نہیں آئی ؟یہ سوال کبھی خود پر ڈال کے دیکھیں تو اس کا جواب نہ فوج کی صورت میں ملے گا ، نہ سیاستدان کی شکل میں ۔اگر ہم آئینہ دیکھیں گے تو ہمیں آئینہ بالکل سامنے کھڑا اپنا مجرم نظر آئے گا ۔ جو حیرانگی سے ہمیں دیکھ رہا ہو گا جس کے چہرے پر پہلے بے یقینی کے تاثرات ہوں گے ، لیکن پھر اس کی آنکھوں سے ندامت جھلکے گی اور بے اختیار زبان سے یہ ادا ہو گا ۔
آج ٹکرا گیا تھا میں خود سے
آج میں بے حساب ٹوٹا ہوں


اس ساری صورتحال میں میڈیا کا کردار بھی کافی متنازعہ رہا ۔ یہ میڈیا جس نے ہمیں اپنا پیروکار بنایا ہوا ہے ۔جس کی اطلاعات ہمارے لئے حرف آخر ہیں۔ سوشل میڈیا پر ڈالی گئی نام نہاد پوسٹس مذموم مقاصد کے لئے کی جاتی ہیں اور ہم بغیر کسی تصدیق کے اپنا کان ٹٹولنے کی بجائے کتے کے پیچھے بھاگ پڑتے ہیں۔
میڈیا کو تو کھیلنے کے لئے کچھ نہ کچھ چاہیے اور ہمیشہ ہی چاہیے اور آج کل ترکی اور جمہوریت کو کیش کیا جارہا ہے ۔ وہاں کی جمہوریت پر عش عش کر رہے ہیں اور یہاں کی جمہوریت کو کچھ مخصوص اینکرز اپنے ذاتی بغض اور عناد کی وجہ سے گالیا ں دے رہے ہیں ۔ ذاتی مفاد میں لوگوں کو ورغلا رہے ہیں۔اگر ترکی میں جمہوریت ضروری ہے تو پاکستان میں اس سے بھی زیادہ۔ طیب اردوان اور جمہوری حکومت کے لئے لوگ نکلے ہیں تو اس کی وجہ محض ان لوگوں کا شعور اور فہم ہے ۔ وہی شعور اور فہم جو ہمارے تمام مسائل کا حل ہے ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ترکی طرز پر یہاں جمہوریت پر شب خون مارا گیا تو مٹھائیاں بانٹی جائیں گی ۔ کیا یہ لوگ اندھے بہرے اور گونگے ہیں ؟ کیا یہ غلامی کے اتنا رسیا ہوچکے ہیں کہ آزادی کی تعریف ہی بھول گئے ہیں ؟ کیا یہ لوگ چابک پر رقص اور بوٹوں کی ٹک پر سر دھنتے ہیں ۔ اگر یہ نہیں نکلیں گے تو یہ قابل فخر نہیں، بلکہ باعث عار ہے ۔ کوئی دیوار پھلانگ کر آپ کے گھر پر قبضہ کرلے تو ہم بجائے مقابلہ کرنے کی ، اسکے گھر کے مالک بننے پر تالیاں پیٹ رہے ہونگے ۔ ہے قابل فخر؟


ہم کچھ عرصہ سے اس بات نازاں پھر رہے ہیں شعور آگیا ،آگہی آگئی ، قطعی شعور نہیں آیا جب تک جمہوریت کی بحالی کے لئے ہم کچھ نہیں کریں گے ،ترقی کی منازل طے نہیں ہوں گی ۔ پارٹی کو ئی بھی بر سر اقتدار ہولیکن جمہوریت کا عمل نہیں رکنا چاہیے ۔ یہ لو لا لنگڑا جمہوریت کا عمل ہی آگے جاکر ہماری بقا بنے گا ۔ جمہوری حکومت کچھ نہ کچھ ضرور کر رہی ہے ۔ حقیقت مخصوص چینلز کی سکرین کی بجائے اپنی نظروں سے دیکھیں ۔ پنجاب میں شروع کی گئی نو جوانوں کی روزگار سکیم کے بارے میں کتنے لو گ جانتے ہیں ۔ پٹوار سسٹم جیسے فرسودہ نظام کے چھٹکارہ کے لئے جو لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے وہ کس کو پتہ ہے ۔ پنجاب اییرل پارک ، قائد اعظم سولر پارک ، لیور ٹرانسپلانٹ یونٹ کا قیام ، غیر ملکی سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے اسپیشل اکنامک زونز قائم کئے گیے ۔ان کے بارے میں بھی بات کی جانی چاہیے ۔ جمہوری حکومت میں غلطیاں ، کوتاہیاں ضرور ہیں ،لیکن ہماری بقا اس جمہوریت کے پہیہ کے چلتا رہنے میں ہے تبدیلی ہمیشہ بوٹ اور انگلی کی بجائے بیلٹ پیپرسے ہی آتی ہے ۔

مزید :

کالم -