فروٹ، سبزی کے نرخ، ماضی اور حال، گڈ گورننس کہاں؟
جب بھی اور جہاں بھی سینئر سٹیزن، بزرگ شہری یا بڈھے جمع ہوں تو ان کو نسٹلجیا کا دورہ پڑ جاتا ہے اور وہ اپنے ماضی بعید کو یاد کرنے لگتے ہیں جیسے پچاس کی دہائی کا ذکر ہو تو اشیاء خوردو نوش کے نرخوں اور معیار کی بات ہونے لگتی ہے وہاں سے چلیں تو1970ء والی دہائی میں آ جاتے ہیں، پھر ٹھنڈی سانس بھر کے کہتے ہیں، سب ٹھیک تھا۔ یہ تو اللہ بھلا کرے،1958ء کے مارشل لاء کے بعد سے حالات خراب ہونا شروع ہوئے اور مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آنے کی کوشش کرتا نظر آیا، جو آج نہ صرف اس بوتل کو توڑ کر نِکل چکا، بلکہ اب بوتل کا نام و نشان بھی نہیں کہ اسے پھر سے واپس بند کیا جائے۔ اس کو تو انسانی صدموں، آہوں اور سسکیوں کی خوراک مل رہی اور یہ زیادہ پھیلتا جا رہا ہے، بات ’’بڈھوں‘‘ کی ہوئی تو اِس لئے کہ دو روز قبل چند(چار) ’’لاہوری بڈھے‘‘ جمع ہو گئے کسی نے بات چھیڑ دی کہ اب تو پانی بھی خالص نہیں رہا اور آٹا مزید مہنگا ہو گیا ہے۔ ایک سینئر نے آہ بھری اور بولے!کیا زمانہ تھا، ان دِنوں اعشاری نظام رائج نہیں ہوا تھا، ایک روپے میں سولہ آنے اور ایک سیر میں سولہ چھٹانک ہوتی تھیں، بازار میں نانبائی سے کلچہ لیتے تو ایک آنے کا ایک ملتا اور اگر گھر کے لئے لینے جاتے تو پانچ کلچے چار آنے میں مل جاتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ گھی سوا روپے سیر تھا اور گھر سے بکرے کا گوشت لینے آتے تو مٹھی میں چار آنے ہوتے۔ چاچا قصائی کو سلام کر کے کہتے’’چاچا ایک پاؤ گردن کا گوشت دینا‘‘ چاچا قصائی گردن کا ٹکڑا پکڑ کر کاٹتا، اسے صاف کر کے بوٹیاں بناتا اور پھر ایک پاؤ تول کر حوالے کرتا اس عرصہ میں سارے گھر والوں کی خیریت بھی دریافت کر لی جاتی، جبکہ گھی سوا روپے سیر تھا، پچاس ہی کی دہائی میں کچھ قیمتیں بڑھیں تو دیسی گھی (خالص) چار روپے سیر تک پہنچ گیا تھا، بازار میں دو چار آنے کی کمی بیشی ہوتی رہتی، کبھی سوا چار روپے تو کبھی پونے چار روپے کا سیر ہو جاتا۔ 1958ء میں ایوب خان کا مارشل لاء آ گیا، فوجیوں نے اشیاء ضرورت کے اپنے نرخ مقرر کئے، ہمیں خود یاد ہے کہ گھی کا نرخ چار روپے سیر مقرر کر دیا گیا۔ اُس وقت بازار کا پرچون نرخ سوا چار روپے تھا، لوگ گھی کے لئے امڈ آئے اور دکانداروں نے بھی دِل کھول کر گودام تک خالی کر دیئے، پھر کرنا خدا کا ہوا کہ گھی کی قلت ہو گئی ایسا ہی کچھ چینی کے ساتھ ہوا اور گوشت کا بھی مسئلہ بنا کہ سرکاری قیمتیں وہ بھی مارشل لاء حکومت کی مقرر کردہ رائج کی گئیں تو تاجروں نے خوف کے مارے مال اسی بھاؤ فروخت تو کیا، لیکن خریداری نہ کی اور قلت پیدا ہوگئی۔
زیر بحث یہی رہا، اور پھر آج کے نرخوں کی بات ہونے لگی، سب کانوں کو ہاتھ لگا رہے تھے کہ اس مرتبہ عید کے بعد بھی نرخوں میں کمی نہیں ہوئی۔ ہمیں اس کا تجربہ گزشتہ روز ہو گیا جب گھر کے لئے فروٹ اور سبزی کی ضرورت ہوئی، فروٹ والے(ریڑھی بان) کے پاس گئے ، سیب دیکھا تو کالا کلو نہیں تھا، چاٹ والا سخت سیب تھا، اس کے نرخ پوچھے تو ڈیڑھ سو روپے فی کلو تھے، آڑو 120روپے فی کلو بتائے گئے، اسی طرح دوسرے پھلوں کے نرخ بھی عید سے پہلے والے ہی تھے جواب تھا مال ہی کم آ رہا ہے۔
یہ تو فروٹ اور فروٹ کی ریڑھی والے کی بات تھی، اب ذرا دوسرا حال بھی بتا دیں، عید سے پہلے بکرے کا گوشت850روپے فی کلو تھا جو عید سے پہلے والے تین چار دِنوں میں 880 روپے فی کلو فروخت ہوا، عید کی چھٹیاں گزرنے کے بعد نرخ معمول پر آنے کی توقع تھی، لیکن ان میں اضافہ ہوا اور اب بکرے کا گوشت 860 روپے فی کلو فروخت ہو رہا ہے۔ گزشتہ روز سبزیاں خریدنے کا خیال آیا تو علامہ اقبال ٹاؤن کی سبزی منڈی گئے! یہاں تھوک کے بعد پھڑیئے پرجون سودا بیچتے ہیں اور باقاعدہ دکان داری ہوتی ہے۔ ڈھائی کلو پیاز، ڈھائی کلو آلو، ایک کلو لہسن (چائنا) ایک کلو ٹماٹر اور ڈیڑھ پاؤ ادرک لیا جب پیسے پوچھے تو 670روپے بن گئے تھے، جھٹکا لگا کہ یہ نرخ تو عید سے پہلے بھی نہیں تھے، اسی طرح کریلے (سیزن ختم ہونے جا رہا ہے) 80روپے فی کلو، گوبھی120روپے فی کلو، مٹر 160 روپے فی کلو، گھیا ٹینڈے 100 روپے فی کلو، گھیا توری80روپے فی کلو اور بھنڈی120روپے فی کلو بک رہی تھی اور یہ منڈی کہلاتی ہے۔ صاحبزادے نے پوچھا تو بتایا کہ 1900 روپے کا سودا آیا،جبکہ کلو اور سوا کلو سے زیادہ کوئی سبزی نہیں لی، بلکہ آدھ، آدھ کلو بھی لی ہے۔ اس کا حساب تھا کہ یہی سودا بلکہ اس سے زیادہ لیتے تو6 سے7 سو روپے کی ادائیگی کرتے تھے، مطلب یہ کہ دو ڈھائی ماہ کے عرصے میں نرخوں میں ڈیڑھ سو گنا اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف برائلر مرغی سستی ہو رہی ہے تو انڈے (برائلر) مہنگے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ گزشتہ پندرہ روز میں 20 روپے فی درجن نرخ بڑھے ہیں۔
یہ دُکھ رویا جا رہا تھا کہ اشرافیہ کو تو کوئی فکر نہیں، درمیانی طبقہ بھی کبھی کبھار اُف مہنگائی کر کے خاموش ہو جاتا ہے۔ شامت تو نچلے درمیانی طبقے(سفید پوش) ملازمت پیشہ افراد کی آ گئی ہے۔ اس طرف کسی کی توجہ ہی نہیں۔ بات گڈ گورننس اور نگران کی ہوتی ہے، تو پنجاب کے وزیراعلیٰ کے متحرک ہونے اور دلچسپی کی تعریف کی جاتی ہے جو درست بھی ہے کہ جو پروجیکٹ وہ شروع کراتے ہیں ان کی نگرانی بھی کرتے،ہمہ وقت چست رہتے اور ان پروجیکٹس کی تکمیل کے ذمہ دار بھی ہوشیار باش ہوتے ہیں۔ میٹرو بس ہو یا اورنج میٹرو ٹرین وہ کسی کو سستی نہیں کرنے دیتے، لیکن کیا یہ گڈگورننس ہے؟ اصل بات تو یہ ہے کہ جو مسائل روز مرہ کے ہیں ان کا رکھوالا کون ہے اور کیا یہاں گڈگورننس نہیں ہو سکتی،ہر شعبہ کے لوگ اپنی اپنی جگہ کام کریں، لیکن یہاں یہ نہیں ہو رہا، میونسپل ٹاؤن والے ہڈ حرام اور رشوت خور ہیں، تجاوزات خود کراتے اور ان سے عوضانہ وصول کرتے ہیں، بھینسیں کھلے عام پھرتی ہیں۔ گرین بیلٹ اور گھروں کی باڑ کھاتی رہتی ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، پی ایچ اے والے ان سے بڑے کام چور ہیں، مال روڈ اور وحدت روڈ جیسی مرکزی سڑکوں پر کچھ کام کرتے دکھائی دیتے ہیں، کالونیوں کی گرین بیلٹ اور پارک ویران اور گندگی سے بھرپور ہیں، کوئی مالی، کوئی خاکروب توجہ نہیں دیتا،بھینسیں اور بھیڑیں کھلے عام ان پارکوں اور گرین بیلٹوں میں جگالی کرتی ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، حد تو یہ ہے کہ مرکزی گرین بیلٹ(مصطفےٰ ٹاؤن) میں جھونپڑیوں والے چار پائیاں بچھا کر کھانا بھی یہیں پکاتے اور دو وقت بھینسوں کے دو مختلف ریوڑ یہاں گھاس اور پودے کھاتے رہتے ہیں، کسی نے پوچھا تک نہیں، جبکہ اسی گرین بیلٹ پر قبضہ بھی شروع ہو چکا، تو محترم ماضی کو چھوڑیں، حال کی بات کریں اور پوچھیں گڈ گورننس کہاں؟