ترکی کے حالات کا پاکستان پر اثر
ترکی میں ہونے والے حالیہ واقعات ایک اہم پس منظر رکھتے ہیں، مختلف مواقع پر اس پس منظر کو ترکی کی قیادت سے ملاقاتوں میں سمجھنے کا موقع ملا۔ ترکی اور پاکستان میں فوج نے کئی بار مداخلت کر کے زمامِ حکومت سنبھالی، مگر عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکامی پر سول حکومتیں معرضِ وجود میں آ گئیں۔ دونوں ملکوں کی افواج ایک دوسرے سے مختلف تاریخ رکھتی ہیں۔ ترکی کی فوج نے عالمی قوتوں کا مقابلہ کر کے آج کے ترکی کی بنیاد رکھی۔پاکستان ووٹ کی طاقت سے بنا اور اس میں افواج پاکستان نے جنم لیا۔ دونوں ملکوں کی فوجی حکومتیں کرپشن کو ختم کر سکیں نہ ہی عام آدمی کے مسائل حل کر سکیں۔ دونوں ملکوں میں فوج نے ہی سیاسی جماعتیں بنائیں اور سیاسی قیادتیں بھی فوج کی چھتری میں حکومتیں کرتی رہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں میں نئی سوچ نے جنم لیا۔ لوگ ذہنی طور پر قیادت کو بہتر سمجھنے لگے، مگر سیاست دانوں نے اپنے طرز عمل سے مُلک کی معاشی اور سیاسی ترقی میں کوئی قابلِ ذکر کارنامہ سرانجام نہ دیا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ترکی کی موجودہ قیادت نے معاشی اور سماجی طور پر پاکستانی قیادت سے زیادہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔1999ء میں مجھے وزیراعظم کی نمائندگی کرتے ہوئے ترکی کے سفیر کی اہلیہ کی میت انقرہ پہنچانی تھی، جو موٹروے حادثہ میں فوت ہو گئی تھی، جونہی انقرہ ایئر پورٹ پہنچا مجھے پاکستان کے سفیر نے ایک طرف جا کر کارگل کی تازہ ترین صورت حال کے بارے میں بتایا اور اطلاع دی کہ پاکستان نے ہندوستان کے دو مگ طیارے مار گرائے ہیں۔ جہاز کے عملے اور سفیر نے کہا اگر آپ مناسب سمجھیں تو کچھ وقت کے لئے رُک جائیں تاکہ عملے کو کچھ آرام مل جائے۔ مَیں نے اجازت دے دی اور سفیر پاکستان سے کہا:مَیں نے جہاز میں کافی آرام کر لیا۔ مَیں اتاترک کے مزار پر جانا چاہتا ہوں۔ تمام انتظامات مکمل ہو گئے اور مَیں اتاترک کے مزار پر فاتحہ خوانی کرنے کے لئے پہنچ گیا۔
اتاترک کے مزار پر فاتحہ خوانی کے بعد عصمت انونو کی قبر پر چلا گیا۔ جدید ترکی کی90سالہ تاریخ میرے سامنے تھی۔ اتاترک نے یونان اور برطانیہ کی فوجوں کو اس وقت شکست سے دوچار کیا، جس وقت محوری شکست کھا کر ذلت آمیز معاہدوں پر دستخط کر رہے تھے اور اتحادی دُنیا پر چھا چکے تھے، جس طرح آج امریکہ کے سامنے کوئی دم نہیں مار سکتا، اتحادیوں کے سامنے کھڑا ہونا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ اتاترک نے نہ صرف ترکی کی شکست کو فتح میں بدل دیا، بلکہ ترکی جو یورپ کا مردِ بیمار کہلاتا تھا اسے باوقار قوموں کی صف میں کھڑا کر دیا۔ آج کا ترکی اپنی فوج کی بے بہا قربانیوں کے صلے میں قائم و دائم ہے۔
اتاترک نے کبھی عالم اسلام کا رہنما بننے کا دعویٰ نہیں کیا۔ اس کے نظریات سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے اور ترک قوم اپنے ان اختلافات کا اظہار کئی مرتبہ انتخاب کے ذریعے کر چکی ہے۔پاکستان کے وجود کی بنیاد ہی اسلامی تشخص میں مضمر ہے۔ اس لئے اتاترک کی تمام تر عظمت کے باوجود ان کے خیالات پاکستان میں نافذ کرنے سے پاکستان کے قیام کا جواز ہی باقی نہیں رہتا۔ اتاترک کو عربوں سے جائز شکوہ تھا اور وہ اپنی آزادی کے تحفظ کے لئے کوئی مزید بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں تھا، عرب بھی آزادی چاہتے تھے۔ استعماری قوتیں اس موقع سے فائدہ اٹھا کر پورے علاقے کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنا چاہتی تھیں تاکہ اپنی مرضی کی کٹھ پتلی حکومتیں مسلط کر کے اپنے مفادات کا تحفظ کر سکیں،انہی چال بازیوں کا ثمر ہے کہ مسلمان بطور ایک قوت کے نہیں ابھر سکے اور نہ اپنے وسائل سے فائدہ اٹھا کر اپنے عوام کی قسمت بدل سکے ہیں۔ دُنیا کے 60فیصد سے زیادہ تیل کے ذخائر رکھنے والی قومیں غربت، جہالت اور ذلت کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہیں۔اتاترک نے مشکل حالات میں باوقار طریقے سے زندہ رہنے کے لئے جنگ کی اور عالمی استعمار کی دھمکیوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے۔
مَیں اتاترک کے مزار سے نکل رہا تھا کہ پیغام ملا ترکی کے وزیراعظم بلند ایجوت مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ ہم وہاں سے سیدھا وزیراعظم ہاؤس پہنچے،راستے میں سینکڑوں کیمروں کی چکا چوند روشنی حائل تھی۔ مَیں نے وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ بطور سیاست دان مجھے احساس ہے کہ آپ کا آج کا دن بہت مصروف ہے، اسی دن چار ماہ کی انتھک کوششوں کے بعد ان کی مخلوط حکومت کی کابینہ حلف اٹھا رہی تھی۔ مَیں نے کہا: یہ آپ کی میرے مُلک کے لئے محبت ہے کہ آپ نے شیڈول تبدیل کر کے مجھے ملاقات کا اعزاز بخشا ہے۔ وہ سنجیدہ ہو کر کہنے لگے، مَیں نے ایک دو ضروری باتیں آپ سے کرنی تھیں، واپسی تک آپ کی حکومت بھی ہو گی یا نہیں، مَیں کارگل کے حالات دیکھ رہا ہوں، ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ابھی تک اپنے ملکوں کو مستحکم حکومتیں نہیں دے سکے، جس کی وجہ سے ہم معاشی طور پر ترقی نہیں کر سکے۔ کہنے لگے:مجھے بیس سال پہلے نااہل قرار دے دیا گیا تھا، اب پھر مجبور ہو کر اقتدار میرے حوالے کیا گیا۔ ہم نے جلال بایار اور عدنان مندریس کو پھانسی دی،اب اپنی ائر پورٹس ان کے نام سے منسوب کرنی پڑی ہیں۔ آپ کو بھی انہی حالات کا سامنا ہے۔ کارگل سے کچھ اور نہ نمودار ہو جائے، جہاں تک پاکستان کی مدد کا تعلق ہے اس سلسلے میں ہمیں ایک دوسرے کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان ہمیشہ ترکی پر اعتماد کر سکتا ہے۔ ہم دو سیاست دان ایسے مل رہے تھے جیسے انتخابی مہم میں محلے کے کھوکھے پر بیٹھ کر گپ شپ کر رہے ہوں۔ ہم چائے بھی شڑاپ شڑاپ کر کے پی رہے تھے اور کسی قسم کے تکلف کو روا نہیں رکھ رہے تھے۔ مَیں نے شکریہ ادا کر کے اجازت چاہی اور وزیر خارجہ سے بھی خدا حافظ کہا۔ اس نے کہا کہ مَیں ائر پورٹ تک چلوں گا، مَیں ائر پورٹ پہنچا تو وزیر صحت اور وزیر خارجہ نے مجھے خدا حافظ کہا۔ کارگل کے سانحے کے بعد ہماری حکومت ختم ہو گئی۔ پرویز مشرف جو اتاترک کے پیرو کار ہیں، کی حکومت قائم ہو گئی۔
بلند ایجوت نے ملائیشیا اور ہندوستان کا دورہ کیا، ہماری حکومت کی کوشش کے باوجود پاکستان میں رکنے سے انکار کر دیا۔ پرویز مشرف ترکی کے دورے پر گئے تو ایک نائب وزیر خارجہ نے ان کا نیم دلی سے استقبال کیا۔ بلند ایجوت اپنے جرنیلوں کی حکومت پسند نہیں کرتا تھا، ہمارے جرنیلوں کا استقبال کیسے کرتا۔جب فوجی حکومتیں آتی ہیں تو مُلک کی حیثیت بین الاقوامی برادری میں ایسی ہو جاتی ہے جیسے اغوا شدہ عورت، خواہ اپنی مرضی سے گئی ہو یا اسے زبردستی اغوا کیا جائے۔ ضیاء الحق صاحب کے دور میں کوئی سربراہ مملکت پاکستان آنے کو تیار نہیں تھا۔ بڑی مشکل سے مالدیپ کے سربراہ مامون عبدالقیوم تیار ہوئے، مالدیپ کی آبادی اڑھائی لاکھ ہے، اس کی کرنسی کا نام بھی روپیہ ہے اور اس کا وقت پاکستان کے وقت کے مطابق ہے، اس کی ساری آبادی مسلمان ہے۔ قرب کے باوجود ہم نے ایک جہاز چاولوں کا بھر کر اپنے کرایہ پر وہاں پہنچایا اور ان کے آنے پر مالدیپ کی پارلیمنٹ کی بلڈنگ بنا کر دینے کا تحفہ دیا۔ اگرچہ اپنے مُلک کی پارلیمینٹ کا کوئی وجود نہیں تھا، مامون عبدالقیوم کا پاکستان میں اِس قدر شاندار استقبال کیا گیا جیسے بغداد سے مامون عبدالرشید عباسی خود آ کر ہمیں سند حکومت عطا کر رہے ہوں۔ مَیں1992ء میں مالدیپ میں صدر مامون عبدالقیوم کو ملنے گیا تو انہیں اس دورے کی خوشگوار یادیں ابھی تک نہیں بھولی تھیں، پاکستان ٹی وی اور ریڈیو اس دورے کو ایسے پیش کر رہا تھا جیسے امریکہ کا صدر چل کر پاکستان آ گیا ہو۔
پرویز مشرف کے برسر اقتدار آنے پر صدر کلنٹن کو پاکستان میں پانچ گھنٹے رُکنے کے لئے وردی نہ پہننے کا وعدہ کرنا پڑا اور مذاکرات کی میز پر طے شدہ معاہدے کے مطابق ایک فاصلے پر بٹھایا گیا۔ صدر بش اس وقت امیدوار صدارت تھے۔ ان سے جب سوال کیا گیا کہ پرویز مشرف کے بارے میں آپ کے کیا خیالات ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ یہ کون ہیں؟جو ہندوستان کے نئے وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں۔ مَیں نے سنا ہے۔۔۔He is a good guy۔۔۔ وہ اچھا آدمی ہے۔ جب امریکہ کو اپنی پالیسیوں کی حمایت امریکی توقعات سے بڑھ کر ملی تو یوں محسوس ہوتا ہے بش صاحب جنرل پرویز مشرف کے مشورے کے بغیر ایک قدم بھی نہیں چلتے، اب وہ عراق میں جمہوریت چاہتے ہیں اور پاکستان میں پرویز مشرف۔ مجھے سادات کے کیمپ ڈیوڈ سے پرویز مشرف کے کیمپ ڈیوڈ تک خود کو امریکہ کی جمہوریت کے لئے تیار کرنا ہے۔ یہی نیو ورلڈ آرڈر ہے۔ اگر نیو ورلڈ آرڈر یہی ہے تو جولیس سیزر سے پہلے رومن بادشاہوں کی جمہوریت کیا بُری تھی؟