یہ پہلو بھی پیش نظر رکھیں
لاہور ہائی کورٹ کے فل کورٹ اجلاس میں حتمی فیصلہ ہوگیا کہ نہ تو ہائی کورٹ کے نئے بنچ بنیں گے اور نہ ہی ججوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا، تین روزہ فل کورٹ اجلاس میں اس امر پر غور کیا گیا تھا کہ وکلاء کے مطالبے کی روشنی میں ساہیوال اور فیصل آباد میں بھی سرکٹ بنچ بنائے جائیں اور ججوں کی تعداد 60سے بڑھا کر سو کردی جائے، وکلاء کی طرف سے یہ مطالبے مقدمات کی بھرمار اور فاصلے زیادہ ہونے کی وجہ سے کئے گئے تھے تاہم 47فاضل جج حفرات کے اجلاس میں اس سے اتفاق نہیں کیا گیا البتہ وکلاء عدالتی افسروں اور سائلین کی مشکلات میں کمی اور مقدمات کو نمٹانے کے لئے اقدامات تجویز کئے گئے۔ جہاں تک سرکٹ بنچوں کا تعلق ہے تو بہاول پور، ملتان اور راولپنڈی میں پہلے سے موجود ہیں، وکلاء فیصل آباد اور ساہیوال کے لئے مصر ہیں، مزید سرکٹ بنچ بنانے سے اخراجات تو بڑھ جائیں گے تاہم اس سے مقدمات پر کوئی زیادہ اثر نہیں پڑے گا اس کے لئے یہ مطالبہ بھی تھا کہ ججوں کی تعداد 60سے سو کردی جائے، فاضل فل کورٹ نے فی الحال مناسب نہیں جانا۔ فاضل جج حضرات نے کافی غور کے بعد جو فیصلہ کیا اسے تسلیم کرلینا چاہیے کہ انہوں نے خود یہ فیصلہ کیا تو سوچ سمجھ کر کیا ہوگا البتہ یہ عرض ضرور کرنا ہے کہ مقدمات واقعی بہت زیادہ ہو چکے ہیں جب دو ر دراز سے آئے سائلین کو کسی کارروائی کے بغیر واپس جانا پڑتا ہے تو ان کی پریشانی اور تکلیف کا بھی احساس ضروری ہے، ماتحت عدالتوں میں بھی مقدمات کی بھرمار ہے اور اسی وجہ سے دیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں جن میں کرپشن بھی شامل ہے، فاضل چیف جسٹس نے بہت جذبے کے ساتھ اصلاح کے عمل کا یقین دلایا ہے تو دعا کرنا چاہیے کہ ان کا جذبہ سلامت اور ہمت بلند ہو اور وہ اس عظیم مقصد میں کامیاب ہوں، وکلاء اور متعلقہ تمام شعبوں اور اداروں کو بھی تعاون کرنا چاہیے۔